Aik Sawal Aur Bedar Dil Ki Pukar
ایک سوال اور بیدار دل کی پکار
کمرے میں خاموشی تھی، ہم اپنے ضروری کاموں میں مگن تھے۔ زندگی کی عام سی ایک شام، معمول کے مطابق گزر رہی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور ہمارے نہایت قریبی دوست مسکراتے چہرے کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔
وہی مانوس انداز، وہی گرم جوشی۔ حال احوال کے بعد انہوں نے کہا: "یار! بھوک بڑی لگی ہے، باہر چلتے ہیں کچھ ہلکا پھلکا کھاتے ہیں"۔
ہم دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور شہر کے ایک مشہور ریسٹورینٹ کی طرف چل پڑے۔ راستے میں باتوں باتوں میں دوست کا موڈ "سجی" کھانے کو ہوگیا تو ہمارا رخ مشہور سجی ریسٹورینٹ کی طرف ہوگیا۔
کچھ دیر میں ہم ایک اچھے اور معروف سجی ریسٹورینٹ پہنچے۔ سجی کا آرڈر دیا اور ہم اپنی خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے اور ساتھ ساتھ اپنے آڈر کا انتظار کرنے لگے۔
انتظار ختم ہوا اور جب وہ خوشبودار سجی ہمارے سامنے آئی، تو دوست نے ویٹر سے ایک معمولی سی فرمائش کی: "محترم! کولڈ ڈرنک مل سکتی ہے؟"
ویٹر نے مؤدب لہجے میں جواب دیا: "جی سر، کوک، پیپسی، سپرائٹ"
وہ ابھی جملہ مکمل ہی کر رہا تھا کہ میرے دل میں ایک چنگاری سلگ اٹھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا: "پاکستانی برانڈ ہے؟"
ویٹر نے معذرت خواہانہ انداز میں جواب دیا: "نہیں سر، ہمارے پاس صرف یہی ہیں"۔
میں نے نرمی سے کہا: "پاس ہی گورمے ہے، وہاں سے گورمے کولا یا پھر نیکسٹ کولا۔ کہیں سے لا دیں، رقم علیحدہ لے لیں"۔
اس نے صاف انکار کر دیا: "سر! ہمیں اجازت نہیں"۔
اسی گفتگو کے دوران میں نے نگاہ اٹھا کر اردگرد دیکھا۔
ریسٹورینٹ کے تقریباً ہر میز پر، انہی غیر ملکی مشروبات کے گلاس چمک رہے تھے، جن کے متعلق بارہا اقرار ہو چکا ہے کہ ان کی آمدنی کا ایک حصہ اس ریاست کو جاتا ہے جو دن رات معصوم فلسطینی بچوں پر بم گراتی ہے، جس کے ٹینکوں کے نیچے غزہ کی مائیں روندی جاتی ہیں، جس کی گولیوں سے مسجد اقصیٰ کے نمازی چھلنی ہوتے ہیں۔
لیکن یہاں سب بے فکر تھے۔
سب مطمئن تھے۔
کیونکہ انہیں "ذائقہ" چاہیے تھا!
دل سے ایک صدا آئی کیا ہماری بے حسی کی کوئی حد باقی ہے؟
کیا ہمارے ضمیر اتنے سستے ہو چکے ہیں کہ ایک مشروب کے ذائقے پر ہم اپنی آخرت بیچنے پر تیار ہو گئے؟
"یہی مشروب، یہی برانڈز، کھلے الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ہماری خریداری سے ہونے والی آمدنی کا حصہ ان کو جاتا ہے جو تمہارے بھائیوں کے قاتل ہیں"۔
پھر بھی ہم آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
یاد رکھو! وہ دن ضرور آئے گا۔
جہاں نہ وکیل ہوگا، نہ اپیل ہوگی، نہ رعایت۔
وہاں صرف انصاف ہوگا۔
اور سوال ہوگا: "جب تم جانتے تھے کہ تمہارے پیسے سے مظلوموں پر ظلم ہو رہا ہے، تو تم نے کیوں نہ روکا؟ کیوں نہ چھوڑا؟"
اچانک اس بچے کی آواز کانوں میں گونج گئی جس نے کہا تھا کہ "کل قیامت کے دن اللہ کے حضور تمہارا گریبان پکڑوں گا"۔
جیسے یہ الفاظ گونجے تو اہل غزہ سے معافی مانگتے ہوئے ان کی خدمت میں عرض کی
اے اہلِ غزہ
اے میرے فلسطینی بھائیو!
اگر تم رب کے حضور ہمارا گریبان پکڑو، تو ہم میں سے کوئی جواب نہ دے سکے گا۔
دل لرز رہا تھا، آنکھیں بھیگ چکی تھیں اور روح جیسے خاموش چیخ رہی تھی۔
میں نے ویٹر سے کہا: "ہمارا آرڈر پیک کر دیں"۔
اس نے حیرت سے دیکھا اور کہا "سر! ایک آپ کے بائیکاٹ سے کیا فرق پڑے گا؟"
میں نے دھیمی مگر پُرعزم آواز میں کہا: ذرہ ذرہ صحرا بنتا ہے، قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے اور انسان کا ایک سچا قدم، کئی دلوں کو بیدار کر سکتا ہے"۔
گھر واپس آ کر میں نے سجی میز پر رکھی اور اپنے رب کے حضور ہاتھ اٹھا دیے: "یا رب! میں کچھ بڑا نہیں کر سکا۔
لیکن جو مجھ سے ہو سکتا تھا، وہ کیا۔
لکھا، بولا، روکا، آگاہ کیا۔
تُو جانتا ہے میری نیت۔
میری کوشش۔
اور میری کمزوری۔
میرے عمل کو قبول فرما۔
اور اسے میرے لیے ذریعہ نجات بنا"۔
اب یہاں سوال بنتا ہے کہ ہم کیا کھائیں؟ اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
ہم پاکستانی یا نیوٹرل برانڈز کو ترجیح دے سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی آگاہی پھیلاسکتے ہیں۔
بچوں، دوستوں، اہل خانہ کو شعور دے سکتے ہیں۔
مظلوموں کے لیے دعا اور صدقات کرسکتے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر دل سے یہ نیت کرسکتے ہیں کہ ہم ظلم میں شریک نہیں بنیں گے، خواہ کتنی بھی قربانی دینی پڑے۔
یاد رکھیے گا!
محبتِ دنیا نے ہمیں سلا دیا ہے۔
مگر مظلوموں کی آہ ایک دن ہمیں جگا دے گی
اور اُس دن کوئی عذر قبول نہیں ہوگا"۔

