Ye Khud Kushi Thi Ya Ghairat Ke Naam Par Qatal?
یہ خودکشی تھی یا غیرت کے نام پر قتل؟

کبھی کبھی ایک موت، محض ایک موت نہیں ہوتی۔ وہ ایک مکمل داستان ہوتی ہے، ظلم، تحقیر، تنہائی اور گھٹن کی داستان۔ یہ کہانی ایک ایسی عورت کی ہے جس کی دوسری شادی تھی۔ نئی زندگی کی امید لیے، اُس نے رشتۂ ازدواج میں قدم رکھا۔ لیکن اُس کا شوہر اُس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تھا۔ وہ دن رات جسمانی اور ذہنی اذیت کا شکار رہی، مگر صبر کرتی رہی۔ یہاں تک کہ اُس نے اپنے بھائی سے مدد چاہی۔
لیکن بھائی نے جواب دیا: "تم اب تیسری شادی کرنا چاہتی ہو، اس لیے شوہر پر الزام تراشی کر رہی ہو"۔
یہ جملہ شاید اُس کی زندگی کا آخری وار تھا۔ اپنوں کے عدم یقین نے اُسے اس حد تک توڑ دیا کہ اُس نے اپنی پہلی شادی سے پیدا ہونے والے بیٹے کو ایک آخری پیغام بھیجا: "مامو سے کہہ دینا کہ میں واقعی تنگ تھی اپنے شوہر سے، میں تیسری شادی نہیں کرنا چاہتی تھی"۔
پھر وہ پنکھے سے جھول گئی۔ ایک ماں، ایک بیٹی، ایک عورت، زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ موت خودکشی تھی؟ یا غیرت کے نام پر قتل؟
جب معاشرہ عورت کے دکھ پر یقین نہ کرے، جب بھائی بھی بہن کی چیخ کو سازش سمجھے، جب شوہر کا ظلم "گھریلو مسئلہ" اور بیوی کا احتجاج "چالاکی" بن جائے، تو کیا ایسی موت کو خودکشی کہا جا سکتا ہے؟ یا یہ گھٹن اور معاشرتی بے حسی کا بےرحم قتل ہے؟
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا عورت کے پاس رشتے توڑنے کا، آواز اٹھانے کا، نئی زندگی شروع کرنے کا اختیار ہے؟ کیا ہر طلاق یافتہ عورت کا دوبارہ شادی کرنا بدکرداری کی علامت ہے؟ کیا مرد کا ظلم چھپانا "غیرت" ہے اور عورت کا درد بانٹنا "بےغیرتی"؟ ایسی اموات ہمارے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔
یہ کہانیاں صرف آنکھیں نم کرنے کے لیے نہیں، دل و دماغ جھنجھوڑنے کے لیے ہیں۔ اس عورت کی موت ایک فرد کا سانحہ نہیں، ایک بیمار معاشرے کا آئینہ ہے۔
آئیے، ہم سب مل کر خود سے یہ سوال کریں: کیا ہم نے اُسے مرنے پر مجبور نہیں کیا؟

