Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Cyma Malik
  4. Urdu Nazm Mein Aurat Ka Istehsal (2)

Urdu Nazm Mein Aurat Ka Istehsal (2)

اردو نظم میں عورت کا استحصال (2)

ن م راشد کی نظم "رقص" مزدور عورت کے بارے میں ان کے خیالات اور ان کی عقیدت عورت کے حسن، اس کے شعور اور اس کی مضبوطی کو اجاگر کرتے ہیں جو کہ ایک صحت مند معاشرے کی بنت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں

ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو

رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی

ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا

اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

رقص کی یہ گردشیں

ایک مبہم آسیا کے دور ہیں

کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا ہوں میں! جی میں کہتا ہوں کہ ہاں۔

رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر

کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نا پائے

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

زندگی میرے لیے

ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں

اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں

ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب

جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں

تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں

تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ہے

جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

عہد پارینہ کا میں انساں نہیں

بندگی سے اس در و دیوار کی

ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں

جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں

زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں! اس لیے اب تھام لے

اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!

ساحر کی نظم ملاحظہ ہو۔

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں

روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں

وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں

روح مر جاتی ہے تو جسم ہے چلتی ہوئی لاش

اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں

کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے

کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج

لوگ عورت کی ہر اک چیخ کو نغمہ سمجھے

وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا رواج

جبر سے نسل بڑھے ظلم سے تن میل کریں

یہ عمل ہم میں ہے بے علم پرندوں میں نہیں

ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں

ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

اک بجھی روح لٹے جسم کے ڈھانچے میں لیے

سوچتی ہوں میں کہاں جا کے مقدر پھوڑوں

میں نہ زندہ ہوں کہ مرنے کا سہارا ڈھونڈوں

اور نہ مردہ ہوں کہ جینے کے غموں سے چھوٹوں

کون بتلائے گا مجھ کو کسے جا کر پوچھوں

زندگی قہر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک

کب تلک آنکھ نہ کھولے گا زمانے کا ضمیر

ظلم اور جبر کی یہ ریت چلے گی کب تک

اردو شاعری میں جدید عورت کی حسیات اور ان کے جذبات و خیالات کی تصویر کشی خواتین اہل قلم نے بیسویں صدی کے نصف دوم کے پہلے یعنی 1950 سے ہی کرنی شروع کردی تھی، لیکن پدر سری معاشرے کا دباؤ کچھ اس قدر سخت گیر تھا کہ خواتین کو ایک مکمل شاعرہ کی حیثیت سے منظر عام پر آنا ممکن نہیں تھا۔ نسائی تحریک کی بیداری کے طفیل چند تعلیم یافتہ، باشعور اور حساس عورت نے بوسیدہ معاشرے کے حصار سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کے لئے خود بھی جد و جہد کی اور دوسری اہل سخن و اہل ذوق رکھنے والی شاعرات کو بھی میدان جنگ میں آنے کی ترغیب دی۔ ان تمام بندشوں اور قدغنوں کے باوجود 1960 اور خصوصاً 1980 کے بعد متعدد ایسی شاعرات منظر عام پر نظر لانے لگیں جنھوں نے اپنی تخلیقی بصیرت اور فہم و انا کے باوصف نہ صرف اپنے وجود کا احساس دلایا بلکہ اپنے اندر کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنے لگیں جن کے اظہار پر اب تک پابندیاں عائد تھیں۔

اس ضمن میں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، بلقیس ظفیر الحسن، پروین شاکر، سارا شگفتہ، شائستہ یوسف، رفیعہ شبنم عابدی، شاہدہ حسن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان شاعرات نے اپنے کلام کے حوالے سے جدید عورت کی Feelings اس کی فکر، اس کی خواہشات، اس کے مسائل، دکھ درد، اس کی الجھنیں اور مردانہ بالا دستی کے تئیں اس کا نظریہ وغیرہ جیسے موضوعات کو اجاگر کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

کشور ناہید جدید شاعری کے حوالے سے ہمارے عہد کا ایک بڑا نام ہے۔ انھوں نے خود کو پوری طرح اس معاشرے میں منوایا ہے اور اپنی ذہنی فعالیت سے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں عورت کے جمہوری حق حکمرانی اور پوری یا نصف گواہی جیسے مسائل پر بحثیں ابھی تک جاری تھیں وہاں کشور ناہید اپنے جیتے جاگتے وجود کا اعلان یوں کرتی ہیں۔

تمہیں خاموش دیکھنے کی چاہت

قبروں سے امڈی آ رہی ہے

مگر تم بولو

کہ یہاں سننا منع ہے

مجھے جن جذبوں نے خوفزدہ کیا تھا

اب میں ان کے اظہار سے

دوسروں کو خوف سے لرزتا ہوا دیکھ رہی ہوں

عورت کے انسانی وجود کی، مرد ہی کی طرح روحانی جہات بھی ہیں۔

ایسے معاشرے میں جہاں مرد کی بالا دستی عورت سے اس کا وجود چھین لیتی ہے کشور کی شخصیت ایک حرف انکار کی مانند ابھرتی ہے۔ انھیں اپنی پسپائی کا احساس ہے۔ مگر وہ اپنی قوت کا شعور بھی رکھتی ہیں۔ اور یہ جانتی ہیں کہ فنا اور ظلمت کی اس وادی میں جینے اور جیتے رہنے کی سزا کیا ہے۔ اور اس کا صلہ کیا ہے۔

جس معاشرے میں خواتین کو خون خرابے اور فساد کی جڑ جیسے القاب سے نوازا جاتا رہا ہو، وہاں اسے ایک انسان کے روپ میں دیکھنے سمجھنے یا اسے بھی ایک ذہن اور سوچ رکھنے والی عورت کے روپ میں تسلیم کرنا ناممکن تھا۔ جس عورت کو ازل سے ایک اثاثہ سمجھا گیا اور تحفہ یا بکاؤ مال کی طرح دیکھا گیا ہو۔

عورت کے احساسات و جذبات کو مذہب سماج قانون اور اخلاقی قدروں کے نام پر ہمیشہ جھٹلایا جاتا رہا اور یہی دوہرا رویہ عورت کو اپنے وجود کے مکمل ادراک سے محروم رکھے ہوا تھا۔

ایک مرد اساس معاشرے میں جہاں عورت کو صدیوں سے ایک کمتر، کمزور مجہول اور ناقص العقل مخلوق سمجھا گیا ہو، جہاں فی زمانہ اپنے حسن و جمال کی بنا پر اسے ایک شے میں تبدیل کر دیا گیا ہو جس کی معراج ہمارے موجودہ معاشرہ میں موڈل گرلز، طوائفیں کمرشل فلموں کی ہیروئنیں، جس کے مقابلے میں شریک ہونے والی عورتیں ہیں اور فلموں میں جنس کی عام مثالیں ہیں۔ احتجاج کم از کم دانشور و فنکار عورتوں کا ایک فطری عمل ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس طور پر عورت کو "استعمال کی شے" بنانے کی کوشش ہے بلکہ تجارتی زندگی کے تانے بانوں میں اسے ایک شے کا درجہ دے کر اسے منافع خوری کا آلہ کار بھی بنایا جاتا ہے"۔

اس تغیر پذیر معاشرے کی دوڑ میں بالادست سوسائٹی کے پینتروں کا تجزیہ کرنا مشکل ہے۔ اس ترقی یافتہ عہد میں بھی جب کہ معاشرے میں اتنی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں ہر شعبہ حیات میں دونوں کی ساجھے داری برابر ہے۔ ہر میدان میں عورت کے کندھے سے کندھا ملا کر زندگی کی ڈور میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ہر جگہ اپنے آپ کوProofکر رہی ہے باوجود اس کے مردانہ سماج عورت کی اس بہترین کارکردگی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کی آزادی، اس کی ذہنی بیداری اور اس کی ساجھے داری کو ہضم نہیں کرپا رہا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی عورت کو اس مرد سوسائٹی نے دباکر رکھا اور اس کی سوچ اس کے ذہن پر تالے لگائے رکھا۔ اسے مرد کے بغیر بے اعتبار تسلیم کیا گیا۔ یعنی عورت بیکار محض ہے۔ اور سوائے افزائش نسل کے وہ کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر اس حصار سے عورت باہر نکل بھی آتی ہے تو اسے معاشرے میں یہ کہہ کر خارج کر دیا جاتا ہے کہ عورت بھلا ادب تہذیب اور پھر اس دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے کی اہل ثابت ہو سکتی ہے؟ سماجی و سیاسی مسائل پراس کی گرفت ہی کتنی ہے، صدیوں سے گھر کی چاردیواری میں مقید رہنے والی کے پاس تجربے کتنے ہیں؟

عصر حاضر کی نظم میں عورت کے جمال اور اس کی طلب کے بر عکس قانون کچھ اور کہتا ہے اور سماجی ضرورت کس چیز کی ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ عورت کی اوبجیکٹیفیکیشن سے ہی عورت کے جنسی استحصال کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

اگرچہ یہ بات عیاں ہے کہ زنا بالجبر پر ایک وسیع قانون موجود ہے، جس میں بچوں اور ازدواجی زنا بالجبر کے اہم امور کا احاطہ کیا گیا ہے، لیکن یہ قانونی سطح پر اس کی عملی تشکیل کم ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہونے والے جذباتی مظالم کو درخور اعتنا اس لیے نہیں سمجھتے کہ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کہ عورت بھی بالکل ویسی ہی ہے جیسے ایک مکمل انسان ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرد۔ نہ کم نہ زیادہ۔ بالکل برابر۔

مرد نے مندرجہ ذیل پانچ بیانات میں سے کسی ایک کے تحت کسی بھی حالت میں عورت سے جماع کیا ہے تو وہ زنا بالجبر ہے

اس کی مرضی کے خلاف

اس کی رضامندی کے بغیر

اس کی رضامندی کے ساتھ، جب موت سے یا تکلیف کے خوف میں دلا کر رضامندی حاصل کی گئی ہو۔

اس کی رضامندی کے ساتھ، جب مرد جانتا ہے کہ اس نے اس سے شادی نہیں کی ہے اور یہ رضامندی اس لئے دی گئی ہے کہ اس سے شادی کرے گا

جب کہ اس کی عمر سولہ سال سے کم ہو تو اس کی رضامندی کے ساتھ یا اس کے بغیر۔

قانون کے حامیوں نے دعوی کیا کہ اس آرڈیننس کے پیچھے منشا خواتین کو زنا جیسے گھناؤنے جرائم سے بچانا تھا، لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہوا۔

حقیقت میں، اس کا استعمال ان خواتین کو اذیت دینے کے لئے کیا گیا تھا جو اپنی پسند سے شادی کرتی ہیں، طلاق لینے کی خواہش مند بیویاں، طلاق یافتہ خواتین جو دوبارہ شادی کی خواہاں ہیں یا بچوں کی گرفت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں وغیرہ۔ یہ خواتین کے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کرنے والا ایک طاقت کا ذریعہ ہے۔

زنا آرڈیننس کو آخر کار تحفظ برائے خواتین (فوجداری قانون) ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ ترمیم کیا گیا۔

اس قانون نے ان نا انصافیوں کو براہ راست چیلنج کرنے کے لئے عملی تبدیلیاں کیں جو ایسے معاملات سے نمٹنے کے وقت نظام کا حصہ بن چکے تھے:

نکاح جیسے الفاظ کو خاص طور پر قانون سازی سے ہٹا دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ایک خاص اثر ہوگا۔

لہذا جبری طور پر جماع کے دفاع کے طور پر نکاح کے تقاضے کو ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت کے مابین تعلقات غیر فطری ہے اگر جنسی تعلقات کسی عورت کی رضامندی کے خلاف ہو یا اسے مجبور کرکے اس کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ خواہ وہ اس کی بیوی ہو یا نہیں۔ زنا بالجبر ہی ہے۔

کیا پھر ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، 16 سال سے کم عمر کی لڑکی سے شادی زنا بالجبر ہے؟

ادب سماج کے ڈھانچے کی بنیادی اکائی مانا جاتا ہے۔ اخلاقی قدروں سے سماج کی تشکیل اور پہچان دونوں ہوتی ہیں۔ سماج میں عورت پر ہونے والے جذباتی حملے کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ طاقت کا بہیمانہ استعمال کرکے عورت کی سوچ کو قفل لگا دیے گئے ہیں۔ تاکہ وہ اپنا بچاؤ بھی نہ کر سکے۔

عورت کے لیے تشنہ لب شاعر اس کے خال و خط پر دیوان لکھتے ہوئے یہ بھول گئے کہ عورت کو سوچ اور مرضی کا اختیار قدرت نے عطا کیا ہے۔ عورت کی طرف سے مرد کی اسی پیرائے میں اگر تعریف کسی کو سننے کو ملے، جیسا کہ تین نظموں کی میں نے مثال پیش کی، تو عورت شاعرہ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں فاحشہ کہلائی جاتی ہے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan