Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Cyma Malik
  4. Urdu Nazm Mein Aurat Ka Istehsal (1)

Urdu Nazm Mein Aurat Ka Istehsal (1)

اردو نظم میں عورت کا استحصال (1)

شعر انسان کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کے تجربات کا مرقع ہوتا ہے، ان ہی تجربات اور افکار کی روشنی میں جب کوئی تخلیق وجود میں آتی ہے تو وہ شاعری کا روپ اختیار کرتی ہے۔ ذہنی و فکری اور معاشرتی زندگی کا تنوع زبان و ادب میں تنوع اور رنگا رنگی کی وجہ بھی بنا ہے، بائیں ہمہ شعر کے اندر بھی رفتار زمانہ اور انقلاب احوال کے ساتھ تنوع اور رنگا رنگی نیز جدت طرازی دیکھنے کو ملی، گویا شعر کو بھی ارتقائی ادوار سے گزرنا پڑا ہے۔ اس ارتقائی عمل کے دوران شعر نے اصناف شاعری کی مختلف شکلیں دیکھی ہیں، مثال کے طور پر غزل، نظم، قصیدہ، مثنوی، رباعی وغیرہ۔ ان ہی اصناف میں نظم ایک اہم صنف ہے جس کے بغیر اردو زبان میں شعر و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔

اردو کی شعری اصناف میں غزل کے بعد جس صنف کو سب سے زیادہ شہرت و داد ملی وہ نظم ہے۔ نظم ایک فصیح و بلیغ صنف سخن ہے جس میں کسی بھی مضمون کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ شاعر اپنے مافی الضمیر کو کسی عنوان کے تحت تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے، اس میں قافیہ و ردیف کی کوئی قید نہیں ہوتی، نظم کا جو تصور ہمارے ذہن میں قصیدہ، مثنوی، واسوخت، ہجو اور دیگر مماثل اصناف کے تعلق سے ہے جدید نظم ان میں ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔

بیانیہ کی کارگردگی افادیت و اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن شعر کی بنیادی ساخت استعارے، علامت، اور پیکر کی مرہون منت ہے، اس لیے جدید نظم طریقہ کار کی سطح پر حاوی انداز میں صرف بیانیہ پر تکیہ نہیں کرتی، جدید نظم نے علامتی طریقہ کار کو باہر سے وارد کیے ہوئے کسی فیشن یا کلٹ کے طور پر نہیں اپنایا، بلکہ علامتی طریقہ کار کو ہی اپنی خصوصیت بنا لیا، کیونکہ علامتی طریقہ کار تخلیقی عمل کے لیے جز لاینفک ہے۔

جدید نظم مضامین، موضوعات اور انسانی تجربات کے نقطہ نظر سے وسیع دائرہ عمل میں داخل ہوگئی، اور اب سیاسی، اخلاقی اور دیگر مضامین کے اعتبار سے کوئی مضمون یا تاثر اس کے لیے ممنوع نہیں رہا، سمندر کی سی وسعت اپنے اندر سمائے ہوئے جدید نظم اپنی ارتقائی سفر پر گامزن ہے۔

جدید نظم نے مشرقی و مغربی ادبی فکر کا امتزاج رکھتی ہے، جدید نظم گو شعرا نے ایک طرف سریلزم، امپریشنزم، سمبلزم، داد ازم کیوبزم، امیجرازم سے استفادہ اٹھاتے ہیں دوسری جانب وہ مشرقی فلسفہ زندگی، ہندو دیومالائی اور اسلامی تہذیب و تمدن سے مانوس نظر آتے ہیں۔ جدید نظم نے ان تمام تاثرات کو اپنے اندر جذب کیا جو انسانی زندگی میں مختلف تجربات و حوادث کی شکل میں اس کی زندگی میں داخل ہوئے، وہ فلسفہ کی شکل میں ہو یا ادبی تھیوری کی شکل میں نظم نے اسے اپنایا۔

ایجاز و اختصار اجمال جدلیاتی لفظ تہہ داری وہ اوصاف ہیں جو کسی بھی منظوم تحریر کو شعری سطح پر بال و پر بنانے کے لیے ناگزیر طور پر ضروری ہیں، جدید نظم گو شعرا نے دیگر زبانوں کی اصناف سخن میں بہت تجربے کیے ہیں ان میں نظم معریٰ، آزاد نظم، سانیٹ ترائیلے، نثری نظم، ہائیکو، ماہیا، اور دو ہا قابل ذکر ہیں، یہ الگ بحث ہے یہ تجربے کس حد تک کامیاب ہیں اور کس حد تک اردو زبان کے مزاج اور فطری آہنگ کے اعتبار سے ناکام۔ بحر حال نظم معریٰ اور آزاد نظم کے بعد نثری نظم بھی قبولیت سے سرفراز ہو چکی ہیں۔

جدید نظم نے زبان کی شکست و ریخت، رسمی اور غیر رسمی آہنگ اور دیگر زبانوں کے الفاظ سے بھی استفادہ کیا ہے، لیکن اردو زبان کی روایت کو ایسا نظر انداز بھی نہیں کیا کہ زبان کو غیر مانوس، غیر مربوط اور غیر ہموار بنا کے رکھ دیا ہو ہے۔

ترقی پسند تحریک سے منسلک شعرا نے نظم کو تقویت بخشی۔ شعری اصناف میں اشتراکی خیالات کی ترسیل کا بہترین جامہ نظم رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ کہ نظم میں مضامیں بیان کرنے کی وسعت ہے۔ آزادی ہند میں اردو نظم کا اہم کردار رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک جو اشتراکیت، اجتماعیت اور ادب میں مقصدیت کی حامل تھی، اس سے نظم کے موضوعاتی پہلو میں ایک انقلاب آیا اور بھوک و افلاس، سیاست، ٓزادی اور آدمیت جیسے معتبر مضامین کو بالخصوص نظم میں پیش کیا جانے لگا۔ شعرا نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، اس تحریک سے منسلک شعرا میں فیض احمد فیض، علی سردار جعفری مخدوم محی الدین، ساحر لدھیانوی، جوش ملیح آبادی کیفی اعظمی، اختر الایمان، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور حبیب جالب اہمیت کی حامل ہیں۔

اردو نظم ایک لمبے عرصے تک ترقی پسند تحریک کی اثر اندازی رہی اس کے ساتھ ہی حلقہ نے بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جو عصر حاضر میں بھی اپنی عمدہ تخلیقات سے اردو نظم کی دامن میں تازگی جدت پیدا کر رہی ہیں۔

اردو شاعری میں بالخصوص غزل اور نظم میں جس طریقے سے عورت کی تعریف کی گئی ہے ہمارا آج کا موضوع وہ مخصوص شاعری ہے۔

یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اردو شاعری میں شاعر عورت کی تعریفیں کرتے ہوئے صرف اس کے بدن تک اپنی تخلیق کو کیوں محدود کر دیتا ہے۔

بدن ایک محدود حاشیہ ہے۔ یوں کہیے کہ لباس ہے جو روح نے اوڑھا ہوا ہو۔ بدن فانی ہے، روح لافانی ہے، روح میں احساسات ہیں، جذبات ہیں، سوچ ہے، فکر ہے، تدبر ہے اور تخلیق ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر سوال ہیں۔

شاعر کیا عورت کے سوالوں سے گھبراتا ہے؟ اس لیے روح کی بابت کچھ نہیں کہتا۔ کیا عورت کی سوچ کی پرواز سے خوفزدہ ہے یا اسے ڈر ہے کہ جو مقام اس نے عورت سے چھینا تھا عورت اسے واپس لے لے گی۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر اختر علی سید اپنے ایک کالم میں فرماتے ہیں"سماجی نظام کی تبدیلی کا آغاز جس خوف کی بنیاد پر ہوا تھا پدر سری نظام اور مذہب کے اشتراک نے اس کو ایک مقدس صورت دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس اشتراک کا اثر اتنا ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھا کہ سخت گیر مذہبی قوانین تو ایک طرف دنیا سے بے زار اور بے نیاز تصوف بھی عورت کے خوف سے اپنے کو نہ بچا سکا۔ مردوں کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ یہ چڑیل (مدر سری نظام کی Wise women کو پدر سری میں اسی نام سے یاد کیا گیا ہے) کسی دن اس کا تختہ نہ الٹ دے۔ یہ خوف مرد کی شہوت کے ساتھ مل کر ایک انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کر لیتا ہے۔ خوف کی اپنی ضروریات ہیں اور شہوت کی اپنی۔ عورتوں کے بارے میں سارے قوانین اور رویے ان دونوں ضروریات کی تکمیل کے لئے تشکیل دیے گئے ہیں"۔

شاعروں نے عورت کی تعریف و توصیف میں اس کی سوچ کا احاطہ کیوں نہ کیا۔ اس چیز پر سخت اعتراض بنتا ہے کہ ادب کے ساتھ یہ نا انصافی ہوئی ہے۔ کہ عورت کے دل و دماغ کو خارج از بیان کر دیا گیا ہے۔

اگر عصر حاضر کی نظم میں عورت صرف اور صرف حسن و جمال کا پیکر اور ایک قابل قدر ڈیکوریشن پیس ہے تو ترقی پسندی اپنی موت آپ مر جاتی ہے، تو دنیا کی نصف آبادی اپنی سوچ اور احساس، اور قابلیت کو لاکھ منوانے کی کوشش کرے، جب تک نظم میں اس کی خصوصیات کا ذکر تک نہ ہوگا، تب تک کیسے عورت کو اس کے حقوق مل سکیں گے۔

عورت کے انسانی وجود کی، مرد ہی کی طرح روحانی جہات بھی ہیں۔

ایک جاندار کی روح سے مراد اس کی وہ قوت حیات ہوتی ہے جو اس کو بے جان اشیا سے منفرد بناتی ہے اس کے لیے انگریزی میں لفظ Spirit آتا ہے۔

روح اور سوچ کو لامحدودیت حاصل ہے اور ایسے میں اہل قلم اور سب سے موثر ذریعہ اظہار نظم میں عورت کو ایک بے جان شے کی طرح پیش کیا جائے گا تو عورت اپنے جملہ حقوق سے محروم رہے گی۔ پھر اس کے بعد اس کے ساتھ جو مرضی سلوک ہو، عورت اس کو سہنے پر مجبور رہے گی۔ چاہے پھر وہ میٹریل ریپ ہو یا موٹر وے پر کی گئی جنسی زیادتی۔ جائیداد سے بے دخلی، غیرت کے نام پر قتل، علم سے بے بہرہ، آگہی اور شعور میں پس ماندہ، ایک غلام عورت ہو جو محض مرد کی تسکین کے لیے بنائی گئی شے بن کر رہ جاتی ہے۔

مشرقی مرد کی سوچ عصر حاضر میں ویسے ہی عورت کو بستر تک لے جانے کی ہے یا اپنے گھر کی عورت ہے تو وہ چولھا ہانڈی تک محدود رہے۔ تعلیم، شعور، علمی مباحث سے اس کا کوئی ناتا نہیں۔ مشرق میں عورت کی یہ تربیت کی جاتی ہے کہ اس نے کسی مرد کا گھر ہی سنبھالنا ہے۔ جھاڑو پونچا، گھر داری، اور شوہر کی عزت کی حفاظت کرنی ہے۔ مشرق کا مرد جہاں مرضی آئے منہ مارے، عورت کو زیبا نہیں کہ شکوہ کرے، شکایت کرے۔ کیوں کہ وہ گھر کی رانی ہے۔ حسن کی دیوی ہے۔ جس پر مہر تصدیق ثبت کرتی جدید نظم اسے حسینہ، ملکہ حسن و جمال اور دیوی پکارتی ہے اور یوں عورت کو مرد کی خدمت پر معمور کنیزوں جیسی تربیت دی جاتی ہے، تو کنیز کی کیا مجال وہ انکار کرے۔

مشرق کی عورت کو فقط ذاتی استعمال کی چیز سمجھا جائے، اس کو گھٹن زدہ ماحول میں پروان چڑھایا جائے اور کسی کی دھوتی کے پلو سے یہ کہہ کر باندھ دیا جائے کہ ہم نے تمھارے بہتر مستقبل کا خیال رکھتے، تمھاری شادی یہاں طے کر دی ہے۔ اچھے لوگ ہیں۔ بس تم نے ہماری لاج رکھنی ہے۔ گھر سنبھالنا ہے۔ بچے پیدا کرنے ہیں۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو تو گھر آباد رکھنے کے لیے برداشت کرنا ہے۔ اس پر مستزاد سیکس بھی گھریلو کام کاج کی طرح ڈیوٹی بنا دیا جائے، تو سونے پہ سہاگا ہو جاتا ہے۔ لیجیے "مشرقی عورت" کا مجسمہ تیار ہو جاتا ہے۔ وہ پتھر کی دیوی ہے، جس کے جذبات نہیں، محسوسات نہیں، خواہشات نہیں۔ جو اس کے قدموں میں ڈال دو، وہ گپ چپ ساکت رہے۔ دان قبول کرے۔

شاعروں سے جو اخلاقی کوتاہی ہوئی، اس اخلاقی کوتاہی کے باعث ہاں اور ناں کا تصور خلط ملط ہوگیا۔

عموماً شعری تخلیقات میں انکار کا مطلب شرم و حیا، ناز و نخرہ، انداز و ادا کو بطور نسوانی رویہ لیا جاتا ہے، جب کہ عورت ان مخصوص جذبات کے علاوہ دوسرے بھی جذبات رکھتی ہے، جیسے کہ ناپسندیدگی کا اظہار، کسی فرد کے بار بار بے تکلفانہ اصرار پر انکار اور غیر رضا مندانہ رویہ اختیار کرنا عورت کا حق ہے۔

اکثر شعراء کرام اور منصف اپنے کلام و تحریر میں عورت کا تذکرہ تلذذ یعنی seduction کے لئے کرتے ہیں۔ جیسے کہ عورت و مرد کے تعلقات کے حوالے سے یا عورت کے جسم کے حوالے سے۔

وہ حسن کا معیار اپنی ذہنی استعداد کے مطابق مقرر کرتے ہیں اور اپنی تخلیقات کے ذریعے اکساتے آتے ہیں کہ عورت ایک جسم ہے اور اس کی "ناں" میں"ہاں" پوشیدہ ہے۔

جب کہ ایسا نہیں ہے۔ جس طرح مرد کے انکار کو انکار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کی ناں کا، مطلب بھی انکار ہی ہے۔

شاعر ایک کم عمر حسین و جمیل لڑکی کا خیالی پیکر اپنی تخلیقات میں تراشتے ہیں جب کہ شرعی و قانونی طور پر کم عمر لڑکی یا لڑکے کے بارے میں ایسے خیالات کے اظہار کی مناہی ہے۔ تخلیقات میں صرف نوجوانی و جوانی کے حسن اور جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔

بڑی عمر کی محبوبہ یا کم صورت خاتون یا خاتون کے سلیقے، ذہانت و شعور کو بہت کم تخلیق کاروں نے اپنے کلام کی زینت بنایا ہے، خال خال ہی تخلیقات میں پختہ عمر کے جذبات یا محبوبہ کا تصور ملتا ہے، چند ایک مثالیں ہیں جیسے کہ ن م راشد، ساحر لدھیانوی اور اختر الایمان۔ اختر کے کلام میں پختہ عمر کی محبت اور محبوبہ کا تصور ہے۔

تتلیاں ناچتی ہیں

پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں

جیسے اک بات ہے جو

کان میں کہنی ہے خاموشی سے

اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات

دھوپ میں تیزی نہیں

ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے

دست شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا

اور مرے شانوں کو اس طرح ہلا جاتا ہے

جیسے میں نیند میں ہوں

عورتیں چرخے لیے بیٹھی ہیں

کچھ کپاس اوٹتی ہیں

کچھ سلائی کے کسی کام میں مصروف ہیں یوں

جیسے یہ کام ہے دراصل ہر اک شے کی اساس

ایک سے ایک چہل کرتی ہے

کوئی کہتی ہے مری چوڑیاں کھنکیں تو کھنکھاری مری ساس

کوئی کہتی ہے بھری چاندنی آتی نہیں راس

رات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر

بات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر

جاری۔۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail