Sunday, 03 December 2023
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Cyma Malik/
  4. Kash Manzil Se Aage Bhi Koi Rasta Jaata

Kash Manzil Se Aage Bhi Koi Rasta Jaata

کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستہ جاتا

نئی تعمیرات سے پرانا مکان اوجھل ضرور ہو جاتا ہے مگر اپنی جگہ قائم ہوتا ہے، نقشہ بدل جانے سے راستے بدلنا پڑتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے ملاقات پیچیدہ عمل بنتا جاتا ہے۔ میں خود کو باہر تلاش کرتی رہی ہوں یعنی وہاں جہاں میں تھی ہی نہیں۔ ہاں، میں اب بھی یاد کرتی ہوں اس دور کو جب سب سے طویل دورانیہ انتظار کا ہوا کرتا تھا۔ جب سچ اور جھوٹ معصوم جذبے تھے۔ جب محبت سوز و زیاں سے پاک تھی اور جب اپنے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب صحرا میں پھول کھلتے تھے۔ تنہائیاں مہکتی تھیں، آنکھوں میں ستارے چمکتے تھے مگر اس نشے کے اترتے ہی لمحات برزخ شروع ہو گئے۔ کیا کھویا کیا پایا، امید محرومی میں بدل گئی اور آس یاس بن گئی۔ محبتیں اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایک نیا دور شروع ہوا جہاں ہر خواہش کو پذیرائی ملی پھر رفتہ رفتہ چاہت کے سواسب کچھ مل گیا۔ اس سے آگے کا لمحہ اور بھی مشکل تھا۔ اداسی کا حل مکمل اداسی ٹھہرا۔ وقت کو کون روک سکا ہے۔ یاد آتا ہے مجھے وہ وقت کے ساتھ بندھا اپنا آپ، راستوں سے بے خبر، منزل کی تلاش میں ایک دائرے میں مسلسل گھومتی پھرتی رہی۔

آنکھوں پر سماج کی فرسودہ روایات کی پٹی باندھے بس گھومتی رہی، گول گول۔ کئی قسم کے خیال بھی آئے مگر مجھے تو بس چلنا تھا، چلتی گئی۔ میں کامیابی اور خوشی کے مفہوم سے مکمل ناآشنا تھی۔ میں وہم میں مبتلا رہی اور سفر کی رائے گانی کو پہچان نہ سکی۔ سفر کرتے کرتے سفر سے محبت ہوگئی اور یہی سب کچھ قسمت سمجھا۔ میں غنی اور میرے ہاتھوں میں ہی کاسہ، نہ خیرات ڈالی نہ مانگی۔ غالباً محبت مغالطے کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جب آنکھوں سے پٹی کھلی توشب و روز برق رفتاری سے انجام کی طرف دوڑ رہے تھے اور میں سب کچھ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تک رہی تھی۔

ایک وقت آتا ہے جب ہر تجربہ خضر راہ بن جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خون میں حرارت پیدا ہوتی ہے اور وہ حرارت اندر طوفان اٹھا دیتی ہے اس لمحے میں نے بھی اپنے بادبان کھول دئیے۔ یہ گلشن میں بہار کا زمانہ تھا جب اتنے پھول کھلے کہ آشیانے ہی کی جگہ نہ طلب ہی باقی رہی۔ سانس پل پل خوشبوؤں سے لدی آتی اور میں نے بھی کشتی جاں کے بادبان کھول دئے اور ایک نئے سفر پر روانہ ہوئی، بغیر کسی منزل کی جستجو کے۔

یہ لمحات آتے سب پر ہیں نصیب کسی کسی کو ہوتے ہیں۔ ایسی محسوسات اپنے آپ کو انکار پر لا کر کی جاتی ہے۔ ذات کی مکمل نفی فطرت کی جانب رجوع کا سبب بنتی ہے انسان اسی منفی رویے پر آ کر مثبت بنتا ہے۔ ادھورا پن آسان نہیں ہے۔ یہ سالہا سال محرومیوں اور ناکامیو ں میں رہنے کا صلہ ہے۔ پہلے پہل ایک خلا سا بنا۔ خلا جتنا بڑھا اتنی ہی تیزی سے تازہ ہوا اس جگہ کو پر کرنے کے لیے دوڑی آئی۔

یہیں اس عورت کا جنم ہوا جس کا آج جنم دن بھی ہے۔ اس کی بھی ہر خواہش کو پزیرائی ملی اور بے شمار چاہت کے ساتھ ملی۔ مگر اب بھی کئی خلا موجود ہیں ذات میں کبھی نہ پر ہونے کے لئے۔ یہی قانون قدرت بھی ہے۔ میں اپنا راستہ اور اپنی منزل سے بہت آگے نکل گئی ہوں جہاں بس خود احتسابی ہے اور کچھ نہیں۔

Check Also

Roshan Kahin Bahar Ke Imkan Hue To Hain

By Azam Ali