Changezpur Ka Jaali Peer Aur Masoom Fatima Rani (3)
چنگیز پور کا جعلی پیر اور معصوم فاطمہ رانی (3)

میرا کیا قصور تھا، ہے کسی کے پاس جواب؟ میں غریب گھر سے تو نہیں تھی۔ نہ میں ان پڑھ گنوار تھی۔ میرے پاس سپورٹ نہیں تھی۔ میں نے ہی لاج رکھنی تھی سب کی۔ مجھ سے لاج نہیں رکھی گئی جب تو بول پڑی کہ میرا سودا ہو رہا ہے۔ اس وقت مجھ پر دائرہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ نوالے نوالے کو میں ترسی، اپنوں کی محبت کو ترسی، ہمدردی کو ترسی۔ مجھ سے جو سوال جواب خاندان کے جرگے نے کیے، ان سب سوالوں کے جوابوں کے بعد میں بے ہوش ہو کر گر جاتی تھی۔
بات صرف طاقت کی ہے نا، میرے شوہر کے پاس طاقت تھی میرے پاس نہیں تھی۔ اور جب میں نے زبان کھولی تو اس کے بعد مجھے ایسی جگہ لا کر کھڑا کر دیا گیا جہاں پر مجھے نئے سرے سے، جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے، لیکن ماں اس کو چھوڑ جائے، باپ بھی نہ ہو، وہ دودھ کو ترسے، اس کیفیت کو سمجھیں۔ وہ دودھ کو ترس رہا ہے، اس کو بھوک لگی ہے، کوئی نہیں اس کی بھوک مٹانے کے لیے۔ میں نے وہ بھوک بھی دیکھی ہے، میں نے سورج کو اپنے سر پر سوا نیزے پر دیکھا ہے۔ مجھ پر زندگی کا دائرہ اس قدر تنگ کیا گیا کہ بس میرے پاس اتنی جگہ تھی جہاں میں دو پیر رکھ سکتی تھی۔ میں وہیں کھڑی ہوئی ٹوٹتی رہی، بنتی رہی، ٹوٹتی رہی بنتی رہی۔ جب اب میں کچھ بن گئی ہوں مجھے نہیں پتہ صحیح یا غلط۔ اب اس کو سوسائٹی قبول نہیں کرتی کہ اس عورت کے منہ میں گندی زبان ہے۔ یعنی کہ جو کمزور ہے وہ ہمیشہ سے دھتکارا جاتا ہے اور دھتکارا جاتا رہے گا۔
ان حویلیوں کے اندر یہاں تک ہوتا ہے کہ بیویاں خود مجبور کی جاتی ہیں، اپنے ہی بیڈ روم میں دوسری عورت کے ساتھ شوہر کا پہرہ دینے پہ کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ راستہ بیوی نے کلیئر کرنا ہے۔ کرتی ہیں عورتیں۔ میں نے کیا۔ کوئی دوسرا راستہ سجھائی ہی نہیں دیتا جب کہیں شنوائی نہ ہوتو کوئی کیا کرے۔ مجھے ان ساری باتوں کا حل چاہیے جو میں نے کی ہیں۔ آپ صرف ہائے غریب بے چارہ، غریب بے چارہ نہ کریں، آپ کہیں کمزور بے چارہ۔ وہ بندہ اگر اپنی بیٹی نہ دیتا پیر صاحب کو، تو اس بندے کا حال بھی ایسا ہونا تھا کہ اس کو نشان عبرت بنا کر چھوڑا جاتا اور پھر بھی اس کی بیٹی کے ساتھ یہی کچھ ہوتا۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ وہ اس پیر کے گھر جاتی ہی جاتی، ہاتھ جوڑ کے گھر والے خود دے کر آتے کہ ہماری بیٹی لے لیں۔ ہم معافی مانگتے ہیں، ہم سے خطا ہوئی تھی۔
میں نے دیکھا ہے ایسے ہی لوگوں کو الٹی میٹم ملتے کہ جگہ خالی کرو۔ جس نے بھی ملک کو انکار کیا اس پورے خاندان کا حقہ پانی بند۔ اور جب یہ سب کچھ ہوتا ہے ان کے سامان نکال دیے جاتے ہیں، انہیں گھروں سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ ان کی کھیتی سے۔ اس وقت وہ ہاتھ جوڑتے ہیں باقی بچوں کی خوراک کے لیے، اپنے پیٹ کے لیے کہ لے لیں ہماری بیٹی، رکھ لیں اپنے پاس۔
اور علاقے کی لڑکیوں کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ آج نہیں تو کل، فلاں ملک کی نظر ہے، فلاں وڈیرے کی نظر ہے، فلاں سائیں کی نظر ہے۔ ناچار ایسی بچیاں اس حقیقت کو قبول کر لیتی ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد یہی ہے۔
ذرا اس بات کو تصور میں لائیے گا ضرور، جو میں نے ایک پکچر پیش کی ہے۔ وہ بندہ جو سلاخوں کے پیچھے ہے اور وہ بچی جس نے اس سے مار ہی کھائی ہے۔ کیوں۔ اتنی مار۔ یہ بھی قسم کھا کر کہتی ہوں گھر والوں کو کوئی فرق نہیں پڑا ہوگا کہ قسمت میں یہی لکھا تھا، لیکن مجھے فرق پڑتا ہے۔ اس دنیا کی ساری عورتیں میری مائیں اور بہنیں ہیں چاہے ان کا تعلق دنیا کے کسی بھی ملک سے ہو، کسی بھی مذہب سے ہو۔ مجھے فرق پڑتا ہے۔ میں انصاف مانگتی ہوں۔ جس کو انصاف کہا جاسکے کہ ہاں انصاف ہوا ہے۔ کیوں؟ کیوں یہ نظام ختم نہیں ہو رہا۔ مجھے ارباب اختیار سے اس کا پورا جواب چاہیے۔
روٹی کپڑا اور مکان کیوں سب کو میسر نہیں۔ یہ ذمہ داری تو حکومت کی ہے۔ حکومت کے کرنے کا کام تو یہ بھی ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی پہ کام کرے تاکہ غریب کے یہاں بچے کم ہوں اور وہ کچھ سکھی ہو۔ کھیل تو سارا روٹی کا ہے۔ بہت ساری چیزیں درستی مانگتی ہیں، کرے گا کون؟
عالی جاہ آپ کی حشمت سلامت رہے پر تھوڑا کرم اور رحم ہم غریبوں پر بھی فرما دیجئے۔ لوٹی ہوئی ملکی دولت میں سے کچھ صدقہ نکال دیجئے کہ ہم بھی جی سکیں۔ آپ اپنا کردار ادا کریں طاقت بیلنس کرنے کے لیے۔ یہ توازن قائم نہیں کر سکتے آپ تو آپ کی عظمت کی قسم، روز لاشیں اٹھیں گی۔
کیا چاہتے ہیں آپ؟ ہم تو نفسیاتی طور پر بیمار ہیں ہی، کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی تباہ ہوں؟ آپ پر گزری نہیں مگر ہم نے جھیلا ہے، ہم کو معلوم ہے کہ جو گزرتی ہے۔ ہمیں انصاف ٹھوس بنیادوں پر چاہیے۔ ہمیں انصاف اس طرح سے چاہیے کہ پھر کوئی یہ حرکت نہ کرے۔ وظیفہ لگائیں گھر والوں کا اور چھین لیں ان سے سارا کچھ۔ یا پھر یوں کیجیے کہ ہم سب عورتوں کو کہہ دیجئے کہ ہم بیٹی پیدا کرتے ہی اس کو ذہنی طور پر تیار کریں کہ تو نے مرد کی طاقت کے سامنے سرنگوں رہنا ہے، اور یہی تیرے حق میں اچھا ہے اور یہی تیرے لیے کاتب تقدیر نے لکھا ہے کہ تو بس استعمال کی شے ہے۔ لاڈو نہ کہیں پھر آپ۔ کس منہ سے آج کوئی بھی باپ اپنی بیٹی کو پیار کرے گا۔ اس کو فاطمہ یاد نہیں آئے گی۔ ابھی تو میرے پاس اور بھی بہت کہانیاں ہیں۔ کس کس کی سناؤں؟
آپ جتنا مرضی کسی عورت کو پڑھا لیں اس کو جب تک طاقت اور اس کے استعمال کا حق نہیں ملتا تب تک وہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتی رہے گی۔ اور ہم وہ لوگ ہیں جو بیٹی کا حق مہر بڑھ چڑھ کر لکھواتے ہیں اور خود ہمارے یہاں لڑکیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا رواج نہیں کہہ کر اس کا حق مارتے ہیں۔ اس کار خیر میں گھر کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔
ہمارے مذہبی رہنماؤں نے بھی عورت کو کمزور تر کرنے میں بہت برا کردار ادا کیا ہے۔ مرد کا ایک درجہ اوپر کہہ کہہ کے اس احساس کو مرد کی رگوں میں گھول کر دیا ہے کہ مرد مطلق العنان ہے۔ برتری کا احساس خود بخود انسان کو مضبوط کر دیتا ہے، طاقت بخشتا ہے۔ ہمارے عظیم لکھاری نے پرتعیش زندگی گزارتے ہوئے ایسا ادب تخلیق کیا اور ہنوز ہو رہا ہے جس میں درس ملتا ہے کہ ہر زیادتی کو اللہ کی منشا سمجھ کر خوشی سے سہ جاؤ۔ ایک مخصوص طبقہ عورتوں کا بھی ہے جو اس پدر شاہی کا حصہ ہیں۔ ان خواتین کو بھی اس سماج میں برسوں سے رائج اسی بے اعتدالی نے دیکھتے ہی دیکھتے درندہ صفت بنا ڈالا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف مرد ہی ظالم نہیں ہیں۔ میں نے کمسن بچوں کو، گھریلو ملازماؤں کو اور خاص طور پر بچیوں کو عورتوں ہی کے ہاتھوں شدید بربریت اور بدترین استحصال کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔ کچھ میری طرح خاموش رہ کر مجرم ہیں تو کچھ ببانگ دہل مردوں کے ساتھ شریک جرم ہیں۔

