Changezpur Ka Jaali Peer Aur Masoom Fatima Rani (2)
چنگیز پور کا جعلی پیر اور معصوم فاطمہ رانی (2)

ہمارے ایک گاؤں کے لڑکے کے ساتھ کچھ ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ اس نے آخر یہ سوچا کہ میں خود کش بمبار بن جاتا ہوں کہ میرے بیوی بچوں کو کھانا تو ملے گا۔ طالبان پیسے تو دیں گے وہ میں پہنچا کر جاؤں گا۔
اب ایسی صورت حال میں ہم والدین کو کیوں الزام دے رہے ہیں۔ ہمیں خود کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔ حکومت کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔ سیاستدانوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے کہ وسائل و ذرائع کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے یہ جو طاقت کا پلڑا ایک طرف کو جھکتا جا رہا ہے، یہ نہیں جھکنا چاہیے تھا۔ اس کو آپ امیر اور غریب کی بات نہ کہیں، اس کو آپ طاقتور اور کمزور کی بات کہیں۔ یہ طاقت کا بہیمانہ استعمال تھا۔
مجھے نہیں پتا کہ ابھی تک رپورٹ نہیں آئی کہ ریپ ہوا یا نہیں ہوا۔ لیکن لڑکی مری ہے۔ لڑکی ٹھیک ہے گیسٹرو سے مر گئی، لیکن وہ ادھر بیڈروم میں کیا کر رہی تھی۔ ایسی جگہ جہاں صرف اور صرف رنگ اور روپ کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں جہاں صرف اور صرف رقص و سرود کا سامان تھا جہاں پر صرف اور صرف انٹرٹینمنٹ تھی۔ ساؤنڈ سسٹم دیکھا ہے، ایل سی ڈی دیکھی ہے، صاحب کا سو جانا دیکھا ہے۔ دوسری نوکرانی نے متوفی کو چیک کرنے کے بعد "یہ مر گئی ہے"۔ اچانک اونچی آواز میں کہا ہوگا جس پر وہ ملزم جاگ کر آیا، دیکھا اور واپس پٹخ دیا ہے۔
میرے سابق شوہر اللہ بخش نامراد (یہی نام لکھوں گی) نے مجھے چند سال قبل بتایا، تمہیں یاد ہے تمہاری انگوری رنگ کی بیڈ شیٹ کڑھائی والی۔ میں نے کہا مجھے یاد ہے۔ گم گئی تھی ناں؟ ہاں گم گئی تھی۔ پھر اس کے بعد اس نے یہ کہا، کہ فلاں بچی جو ہمارے گھر میں کام کرتی ہے میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ وہ لہولہان تھی، کارپٹ خراب نہ ہو جائے میں نے وہ چادر نیچے بچھا دی تھی اور بعد میں میں نے اس چادر کو کھوہ میں پھینک دیا تھا۔
ہمارے یہاں ماڈرن باتھ رومز بن چکے تھے، لیکن کھوئی والا غسل خانہ موجود تھا۔ ایک گندگی ڈالنے کی چیز بن چکا تھا۔ وہاں اس چادر کو پڑے برسوں بیت گئے تھے۔ پھر اس کنوئیں کو پاٹ دیا گیا اور وہ حصہ میرے لان میں شامل ہوا اور میں وہاں پھول اگاتی رہی۔
مجھے خدا پتا نہیں معاف کرے گا یا نہیں کرے گا کہ اپنا گھر بچاتی بچاتی میں اس لڑکی کو کوئی انصاف نہیں دلا سکی۔ لڑکی بھی میرے میکے والوں نے بھیجی تھی۔ میں کچھ نہ کر سکی، میں لاعلم رہی۔ میری عمر بہت کم تھی، جب یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ اس وقت 21 یا 22 سال کی ہوں گی اور ان دنوں میں پریگننٹ تھی اور جلدی گہری نیند سو چکی تھی لیکن ہائے۔ میں کیوں سو گئی تھی؟ میں نے ملازمہ کیوں رکھی تھی؟ وہ لڑکی نابالغ تھی اس لڑکی کی زندگی تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ اس کا ذہنی توازن ہل گیا۔ وہ تین ناکام شادیاں کرکے اپنی زندگی کو برباد کر چکی ہے۔ اس کے کھاتے میں بہت بدنامی آئی۔
جناب کیوں نہ آئیں اس کے حصے میں بدنامیاں۔ کمزور جو ٹھہری۔ طاقتور کے حصے میں تو کسی قسم کوئی بدنامی نہ آئی۔ جواب کون دے گا؟ اس بچی کے پلے جو گناہ بندھے ہوئے ہیں کیا وہ اس اکیلی کے حصے کے ہیں۔ ان گناہوں میں کوئی اور حصہ دار نہیں ہوگا۔ اس کی جھجک اتارنے والے خدا کی گرفت میں نہیں آئیں گے کیا؟
ایک فلپائنی لڑکی جو میرے کالم کے مرکزی کردار کی ملازمہ تھی، اس لڑکی کو جاب کی فکر تھی کہ اس جاب نہ چلی جائے۔ جاب کا تھریٹ دے کر اس سے تعلقات استوار کیے۔ وہ لڑکی پریگننٹ ہوگئی۔ دبئی میں قوانین سخت ہیں۔ نہ ابارشن ہوتا ہے اور نہ ابارشن کی دوائیاں ملتی ہیں۔ اس لڑکی کے ابارشن کے لیے ایک پارٹنر کو پاکستان بھیجا گیا تھا دوائیاں لینے۔ مر جاتی تو؟ اور اس کا جو استحصال ہوا وہ؟
مجھے بتائیے، مجھے جواب دیجیے اس چیز کا۔ یہ جو ہوس سر چڑھ کر بول رہی ہے، یہ دماغوں سے کب اترے گی؟ آج سب حاجی ثنا اللہ بن کر مجھے اور دوسری خواتین کو درس دیتے ہیں کہ پردہ کرو۔ حق ہے بھئی، دے سکتے ہیں یہ آرڈر۔
میرا باپ بھی ایک بے حس جاگیردار تھا۔ یہی حال کہ آئی چھوڑی نہیں اور گئی موٹی نہیں۔ میں یہ ہرگز نہیں کہوں گی کہ صرف سسرال میں ظلم کا نظام تھا، نہیں میرے میکے میں بھی یہی کچھ تھا۔ اور اب سارے توبہ تائب ہو کے پارسا بنے پھرتے ہیں۔
سوال تو یہاں یہ بھی اٹھانا ہے مجھے کہ اگر کوئی لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ آئس کریم کھانے کے لئے نکلتی ہے تو اس بوائے فرینڈ نے صرف اس کو صرف آئس کریم ہی کھلانی ہے ناں۔ آئس کریم کھلانے کے لئے وہ اس کو اپنے ایک دوست کی دکان میں لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آئس کریم لینے جا رہا ہوں۔ اس لڑکے کی نیت خراب نہیں ہے، وہ واقعی آئس کریم لینے جا رہا ہے۔ اعتبار کرکے وہ وہاں بٹھا کر جا رہا ہے۔ جب واپس آتا ہے تو دکان کا شٹر ڈاؤن ہے۔ کیوں شٹر ڈاؤن ہے۔ کھٹکھٹاتا ہے، کھٹکھٹاتا ہے، روتا ہے پیٹتا ہے۔ جب شٹر کھلتا ہے اندر اس کی گرل فرینڈ کے ساتھ، رشتے میں جو اس کا چاچا لگتا ہے وہ ریپ کر چکا ہے۔ اور تھا کون ریپسٹ؟ میرا دیور۔ حج کر آیا ہے۔ داڑھی رکھ لی ہے۔ برا کام نہیں کرنا۔ توبہ جو کر لی ہے تو اس نے دوسری شادی کر لی۔ واہ رے اس اسلام کی آڑ میں چھپے شیطان۔ پہلے کھلے عام بدمعاش تھے تو بھی وہی کچھ، عورتوں کی ہوس۔ اور جب تم ایمان لے آئے سبحان اللہ، اس وقت بھی وہی عورت کی ہوس اور اس مرتبہ دین کے نام پر۔
اس بچی کا جو قتل ہوا ہے بنیادی طور پر طاقت کے بہیمانہ استعمال کا نتیجہ ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی آخری۔ آخری اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ درحقیقت سزائیں ایسی رکھی گئی ہیں جو معمولی ہیں اور سونے پہ سہاگہ وکٹم کو وکٹم بلیمنگ کا خوف دامن گیر اور انصاف کرنے والوں پر عدم اعتماد (جو کہ صحیح بھی ہے اپنی جگہ تو کوئی ڈرتا نہیں ہے۔) ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طاقت کے گھمنڈ میں، چاہے وہ طاقت عہدے کی تھی، جسمانی تھی، پیسے کی تھی جو بھی تھا وہ ساری مجرم سے چھین کر وکٹم کو اگر وہ زندہ ہے دے دینی چاہیے، نہیں تو اس کے گھر والوں کو ساری طاقت دے دینی چاہیے اور اس کو بے طاقت کرکے چھوڑنا چاہیے۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا، دو تین سال میں چھوٹ کر آ جاتے ہیں اور اس کے بعد وہی کچھ۔
اقبال شیخانہ، نواب پور کیس، ہر کسی کو یاد ہوگا۔ نہیں یاد تو میں یاد دلائے دیتی ہوں۔ برہنہ کرکے نواب پور سے جلال چوک تک ملتان میں خواتین کو گھسیٹ کر ان کا تماشا لگایا گیا تھا اور آگے بڑھ کر اس عورت پر چادر ڈالنے والی ایک عیسائی عورت تھی۔ (پاکستان ٹیلی ویژن پر ڈرامہ بناتے ہوئے بہادر مسیحی عورت کی جگہ ایک ریٹائرڈ فوجی کو بندوق تھما دی تھی۔) آج ان عیسائیوں کے چرچ جل رہے ہیں۔ نواب پور میں لوگوں نے اپنی دکانیں بند کرلی تھیں، کمرشل ایریا تھا وہ۔ مردوں کو ڈر نے بے حس کر دیا ہوگا مگر وہ مسیحی عورت نہیں ڈری۔ وہ گئی اور اس عورت پر چادر ڈالی۔ اقبال شیخانہ کا کیا ہوا، سات سال کی قید وہ بھی وی آئی پی انداز میں۔ آرام سے گزری۔ امیر آدمی ہے ناں۔ اس قید کو کاٹ کر جب وہ آیا تو وہ صرف الیکشن کے لیے نااہل تھا۔ ارے اس کی زندگی تو بہت اچھی چل رہی ہے۔ میں جانتی ہوں۔ اس عورت کی زندگی کا کیا جس کا تماشا بنا تھا۔

