Changezpur Ka Jaali Peer Aur Masoom Fatima Rani (1)
چنگیز پور کا جعلی پیر اور معصوم فاطمہ رانی (1)

فاطمہ قتل کیس کے بارے میں فی الحال کوئی بات حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ ابھی بچی کا پوسٹ مارٹم ہونا ہے لیکن اس جیسے واقعات آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں جو گردش وقت نے دکھلائے۔ اس بچی فاطمہ کی مبینہ زیادتی کے بعد موت ہوئی ہے یا نہیں اس کا جلد پتا چل جائے گا مگر میرے دماغ میں ایسی سینکڑوں کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے اعصاب جواب دے گئے اور میں رونے لگی، ایک بار پھر قلم تھام لیا کہ دوستوں نے کہا تھا لکھنے سے انگلیاں فگار ہوتی ہیں تو نہ لکھنے سے آنکھیں خون روئیں گی۔
سوچ رہی ہوں کیا لکھوں۔ میرے پاس ان گنت کہانیاں ہیں لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس کہانی سے شروع کروں؟ نئی نسل جو ہم ہی نے جنم دی ہے اس کے پردادا سے، اس کے دادا سے اس کے باپ سے یا اسی معصوم فاطمہ سے۔ یہ ساری کہانیاں ایک جیسی ہیں۔ تو کیا تفریق کروں کہ کس کی کہانی پہلے اور کس کی بعد میں۔
آج سے کوئی بیالیس برس قبل نتھی نام کی بچی، ایک جاگیر دار کے منشی کی بیٹی۔ اس جاگیردار کی بیٹی کی ہم عمر تھی۔ ان کی رعیت کے مرد لوگ راہ چلتے عورت کو دیکھ کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیتے تھے کہ ہم آنکھ کا پردہ کیے ہوئے ہیں۔ بڑی غیرت مشہور تھی اس جاگیردار کی اور اسی غیرت کی آڑ میں وہ بچی ملازم رکھ لی گئی۔ بچی کی عمر ہوگی کوئی تیرہ، چودہ برس۔ جاگیردار بار بار کیوں کہوں، اس کا نام تھا نورا۔ نورے کی بیٹی اور نوکرانی دالان میں سو رہے تھے۔ بیٹی کو رات کو دودھ کے گلاس میں نیند کی گولیاں گھول کر دی گئی تھیں۔ بیوی میکے گئی ہوئی تھی۔
نتھی کو چبوترے پر لے جا کر زیادتی کا شکار کیا ایک لمبے تڑنگے، قوی جثے والے، بھاری بھرکم مرد نے۔ ایک بارہ تیرہ، چودہ سال کی بچی کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا۔ بچی نے چیخنا چاہا، اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔ ایسا رکھا کہ بچی دم گھٹنے سے تڑپ تڑپ کر مرگئی۔ بچی مرگئی اس ظالم نے اس کو نہیں چھوڑا۔ لگاتار اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا۔ اور اس ساری کارروائی کی صلاح دینے والا ایک پیر تھا جس نے کہا کہ سونا بنانے کی ترکیب بتاؤں گا لیکن اس کے لیے پہلے تمہیں ناپاک ہونا ہوگا کسی کنواری لڑکی کے ساتھ۔
لڑکی مرگئی۔ رات کا یہ واقعہ ہے۔ صبح کو ساری طرف یہ بات پھیل گئی ہے کہ نورے کے پاس اوپر نتھی ہے اور وہ پیر ہے اور کچھ ہے گڑبڑ۔ نورے کو بلایا جاتا رہا۔ باپ اوپر سیڑھیاں چڑھا۔ اس نے جب جا کے دیکھا تو لڑکی مر چکی تھی۔ سردیوں کا موسم تھا، رضائیاں اوڑھا کر پیر مردہ بچی کے منہ میں کینو کی قاشیں نچوڑ کے رس ڈالنے کی کوشش کر رہا کہ ابھی جی جائے گی۔
بچی نے کہاں زندہ ہونا تھا۔ یہ بات اندر ہی اندر دفن ہو جاتی۔ اگر لڑکی کا باپ موسیٰ شیخ اپنے مکان میں نہ رہتا ہوتا اور اس کے اپنے دوسرے کاروبار نہ ہوتے۔ یعنی وہ غربت کی اس سطح پر نہیں تھا۔ سیدھا پولیس کے پاس گیا، رپٹ درج کرائی۔ رپٹ درج ہوگئی لیکن کارروائی نہیں ہو رہی تھی۔ اس قتل کی رپورٹ جب باہر صحافیوں میں پھیلی، اگر کوئی صحافی یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو انہیں یاد ہوگا۔ اس وقت کالجز اور یونیورسٹیز کے لڑکوں نے باقاعدہ جلوس نکال کے مطالبہ کیا کہ یہ آدمی بہت خطرناک ہے، اس کو فوراً گرفتار کیا جائے۔ پولیس کو دباؤ میں آ کر کرنا پڑا۔ سزا ہوئی عمر قید۔
یہاں میں افسوس کی ایک بات بتاتی چلوں کہ وہ جو بیٹی نیچے سوئی ہوئی تھی، باپ نے اس کے ساتھ بھی زیادتی کی تھی اور وہ دہشت کے مارے بول نہ پائی۔ اور باپ کا کہنا تھا کہ اس کی ماں نے ایک اور جگہ شادی کی تھی یہ تو وہاں کی اولاد ہے۔ میری بیٹی ہی نہیں ہے۔ حالانکہ شریعت میں تمہاری بیوی کی بیٹی تمہاری بیٹی ہوتی ہے۔ بیٹی نہ بھی ہوتی تو زیادتی کا حق تو نہیں ہے۔
پانچ سال بعد پیرول پر وہ بندہ رہا ہوگیا تھا۔ ہنسی تو مجھے اس چیز پر آتی ہے کہ اتنا بڑا گناہ، اتنا بڑا جرم کرکے کیسے وہ پانچ سال بعد پیرول پر رہا ہو کر آ گیا۔ جب وہ جیل میں تھا تو اس کی بیٹی کی شادی کر دی گئی تھی۔ لیکن اس کی بچی نے اپنے دیور کو بتایا کہ یہ معاملہ ہے۔ اس کے دیور نے اس کے جیل سے آنے کے تین ماہ بعد اسے قتل کر دیا۔ تین گولیاں ماریں اور نورا مر گیا۔
اس کے بعد آگے کی کہانی سناؤں یا پیچھے کی طرف جاؤں۔ پیچھے کی طرف چلی جاتی ہوں۔
پڑوسی گاؤں میں ایک عورت کو اٹھا لیا گیا۔ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ میرے مرکزی کردار، نئی نسل کا پردادا کوتوال تھا۔ انگریزوں کا زمانہ تھا۔ پڑوسی جاگیردار کوتوال کے پاس پہنچے کہ جی عورت خودسر ہوئی کھڑی ہے۔ کہتی ہے میں نے تو پولیس کے پاس جانا ہے۔ کوئی حل نکالیں۔ کوتوال یار نے کہا کہ "گھوڑی تیار ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ جانا ہے"۔ "ہاں جی"۔ کوتوال جی آ گئے ہیں خبر سن کے کہ گاؤں میں زیادتی ہوئی ہے، لہٰذا وکٹمز حاضر ہوں۔
وکٹمز حاضر ہوتے ہیں۔ باقیوں کو بھیج دیا جاتا ہے کہ ہم نے عورت سے تفتیش کرنی ہے جب عورت سے تفتیش کے بہانے اس کو روک لیا جاتا ہے تو اس وقت گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا چکا ہوتا ہے رات ہو چکی ہے۔ "میں اس کو اپنے ساتھ تھانے لے جا رہا ہوں"۔ کوتوال خود چل کر آیا ہے انصاف دینے کے لیے۔ عورت تیار ہوگئی کہ ہاں میں ساتھ چلتی ہوں۔ چار پانچ اور گھڑ سوار تیار ہوئے وہ عورت ساتھ بٹھائی گئی۔ یہ لوگ اینٹوں کے بھٹے پر گئے جو راستے میں تھا۔ اس عورت کو سیاں جی کوتوال نے اس بھٹے میں زندہ جلوا کے مروا دیا اور دوست کو کہا کہ مدعا رہا ہی نہیں۔ جو کوئی پوچھے گا تو اس کو کہہ دیا جائے گا کہ وہ بھاگ گئی۔ وہ بدقماش تھی، بھاگ گئی۔
یہ ہمارے کارندے ہر طرف گاؤں میں پھیلا دیں گے اور اس کوتوال کے جانشین بد قماش درندے اور ان کے خاندان کا بتاتی ہوں۔ جو بچی جاگیردار کو بھا جاتی تو ریپ تو لازم ٹھہرا، ساتھ ہی اس کی بیوی سے مار بھی کھاتی۔ بالکل ویسی مار دونوں میاں بیوی مارتے جیسے معصوم فاطمہ کو دیکھا آپ نے۔ عورت اپنے خاوند کا تمام غصہ اس بچی پر نکالتی جو جاگیردار کی بربریت کا نشانہ بنی ہوتی۔ وہ بچی دوہری اذیت سہہ نہ پاتی اور اگر بھاگ جاتی تو واپس پکڑ کر لائی جاتی اور چوری چکاری کا الزام لگا کر والدین سے بھی مروایا جاتا۔ بچہ بازی بھی عام سا فعل ٹھہرا اس حویلی میں۔ ان لڑکیوں کا خواتین بھی جنسی استحصال کرتی نہ شرماتیں۔
جس وقت رانی پور کے پیر کی بیوی کا ذکر ہو رہا تھا مجھے لگا میرا ذکر ہو رہا ہے۔ اپنے آپ پر مجھ کو بہت شرم آئی۔ آپ لوگ پیر کی بیوی کو برا نہ کہیں۔ جزوی طور پر وہ خود ظالم ہونے کے ساتھ ہی مظلوم بھی ہو سکتی ہے حالانکہ وہ کسی جاگیردار کے گھر سے ہی آئی ہوگی۔ چھوٹے موٹے آدمی کی بیٹی نہیں ہوگی لیکن وہ میکے میں بھی ٹکے کی کتیا، اور سسرال میں بھی ٹکے کی کتیا۔ ٹکے کی کتیا نہیں تو اس کے گھر کے اندر یہ سب کچھ کیا ہو رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مجبور کر دی گئی ہو چپ رہنے پر اور مردوں کے کرتوتوں کی پردہ پوشی پر اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ایسا ہوتا ہے۔ والدین کو بھی برا بھلا کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے کیوں بھیجا۔ اگر شہر ہوتا تو الگ بات تھی۔
جو وہ علاقہ ہے اس علاقے کا رسم و رواج ہمارے جنوبی پنجاب کے دیہاتوں جیسا ہے۔ وڈیروں کی حویلیوں میں بچیوں نے بچوں نے جانا ہی جانا ہے۔ کوئی نہیں بھیجنا چاہتا تو وڈیرہ خود چل کر آتا ہے اور اس کو انکار کرنے کی صورت میں ان کو مکان خالی کرنا ہوگا یہ اصول ہے۔ مکان خالی کرنا ہوگا کے ساتھ ہی علاقہ چھوڑنا ہوگا اور اس کے بعد کسی دوسرے علاقے میں آس پاس کوئی دوسرا ان کو جگہ نہیں دے گا۔ سر چھپانے کی چھت نہیں ہوگی۔ کام نہیں ملے گا۔

