Aik Dam Genuine Larki
ایک دم جینوئن لڑکی

صائمہ ایک نہایت شریف النفس اور پاکیزہ لڑکی، مگر ایک لڑکی ہونے کی حیثیت سے اس کے بھی بہت سے سپنے تھے اور وہ سپنوں کو حقیقت میں بدلتے دیکھنے کی خواہاں تھی صائمہ اس دہائی سے تعلق رکھتی تھی جس وقت فلموں میں روینہ ٹنڈن اور کرشمہ کپور کھلنڈرے سے گووندا کے ساتھ رومانوی دنیا کی تشہیر کر رہی ہوتیں۔
صائمہ کی بھی ایک دنیا تھی اور اس میں اس کے بھی سپنوں کا راجا اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا۔ عامر ایک ایسا لڑکا تھا جو معصوم اور شریف ہونے کے ساتھ ساتھ ان تمام صلاحیتوں سے مالامال تھا جو صائمہ کو چاہیے تھیں۔
عامر اپنے چچا زبیر کو اپنے دل کی ہر بات بتاتا ہے اور شاید وہ ہی بڑوں میں سے ایسے ہیں جو ان کے میل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ عامر صائمہ کو بتا چکا تھا کہ چچا زبیر میرے باپ سے کم نہیں۔ ان کی شخصیت میں روحانیت کا عنصر بھی موجود ہے اور ان کے تفکرات اور استدلال کا انداز کسی کے ذہن کے بھی در وا کر سکتا ہے۔ صائمہ کو بھی یقین تھا کہ زبیر چچا عامر کی اور اس کی محبت کو فطری عمل سمجھتے ہوئے ان کے رشتے کو ایک جائز نام دلوائیں گے۔
عامر پھر چچا زبیر سے ملتا ہے اور عامر چچا کو کہتا ہے۔
چچا مجھے اپنی زندگی کے سب سے بڑے فیصلے کے بارے آپ سے بات کرنی ہے۔
چچا مجھے ایک لڑکی سے شدید محبت ہے اور اس کا نام صائمہ ہے۔ وہ بھی مجھ سے بے تحاشا محبت کرتی ہے۔ ہم شادی کرنے کا سوچ رہے ہیں اور میں نے سوچا میرے دل کے سب سے قریب آپ ہیں تو میں فوراً آپ سے ہی اس بارے بات کروں۔ چچا آپ کو معلوم ہے ہم زمیندار گھرانے سے ہیں اور ابا کا پارا ہر وقت ہائی رہتا ہے۔ ایک آپ ہی تو ہیں جو اس خاندان میں سمجھ دار اور رحم دل شخصیت کے مالک ہیں۔ چچا پلیز پلیز پلیز میری مدد کریں۔
چچا: بیٹا یہ تو بڑا نیک کام ہے اور جس سے تمھیں محبت ہے تمھیں اس سے شادی کرنے کا پورا حق ہے۔ مگر اس لڑکی کے بارے میں ہمیں بھی تو کچھ جاننا ہوگا۔ بیٹا ہمیں بھی تو دیکھنا ہوگا نا کہ ہماری بہو کس قسم کی ہے۔
عامر: چچا وہ ایک اچھے گھر سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا مزاج اس کا رکھ رکھاؤ مجھے اس سے محبت میں تقویت دیتا ہے۔ چچا اس معاملے میں آپ کا اعتماد ہی مجھے میرے مقصد میں کامیابی دلا سکتا ہے۔
چچا: بیٹا ویسے تو مجھے یقین ہے تمھاری پسند لائق تعریف ہوگی۔ مگر ہم تمھارے بڑے ہیں اور ہمیں بھی تو حق حاصل ہے کہ جہاں ہمارے بچے شادی کرنا چاہیں ہم وہاں غور کریں۔ ایک کام کرو تم اس لڑکی کو مجھ سے ملوانے لے آؤ۔ میں اس سے مل کر تم کو اپنی رائے سے آگاہ کروں گا۔
عامر: میں صائمہ کے ساتھ وقت متعین کرکے آپ سے اس کو ملوانے لاتا ہوں۔
چچا زبیر ایک شوروم کے مالک تھے اور اپنا زیادہ وقت وہیں گزارتے تھے۔ عامر نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ صائمہ کو چچا کے شوروم پر ان سے ملوانے لے کر جائے گا اور یہی وہ دن ہوگا جو اس کی زندگی کو خوشیوں اور راحت میں تبدیل کردے گا۔ عامر بہت خوش تھا کیوں کہ اسے اپنی چچا کی شخصیت پر ہمیشہ سے بڑا بھروسا رہا۔ وہ صائمہ کو کال کرتا ہے اور کہتا کہ چچا زبیر سے ملنا ہے۔
عامر: صائمہ چچا زبیر نے تم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یقین جانو تم بھی ان سے مل کر مطمئن ہوگی۔ صائمہ چچا زبیر ہی ہیں جو ہماری شادی کروا سکتے ہیں۔
صائمہ: عامر اگر انھوں نے منع کر دیا پھر۔ مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی۔ ایک تم میری زندگی میں آئے، اگر ان کو میں پسند نہ آئی تو؟
عامر: ارے صائمہ بے فکر رہو، ہمارے بڑے بس صرف ملاقات میں تھوڑی بہت جانچ کرتے ہیں۔ اصل میں ان کا بھی ارادہ تو یہی ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کی شادی ان کی پسند سے ہی ہو۔ اور ادھر تو صائمہ چچا زبیر ہیں، ان کے بارے تو میں تمھیں کتنا بتا چکا ہوں۔ وہ روحانیت، مذہب اور دیگر دنیوی معاملات میں پورے اشفاق احمد ہیں۔
صائمہ دل ہی دل میں جہاں خوش تھی وہیں اس کے دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ بس کسی طرح وہ چچا زبیر کو پسند آجائے۔ عامر اور صائمہ کا مغرب کے بعد چچا کے شوروم جانے کا پروگرام طے ہوا اور عامر نے کہا کہ وہ اس کو کسی جگہ سے پک کر لے گا۔
عامر صائمہ کو ایک شاپنگ مال کے نزد سے پک کرتا ہے اور دونوں چچا کے شوروم کی جانب امید لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی وہ شوروم پہنچتے ہیں عامر صائمہ کو کہتا ہے کہ تم بس پریشان نہ ہونا، اعتماد رکھو، چچا ہماری کامیابی کی کنجی ہیں۔ آؤ اندر چلتے ہیں۔
عامر اور صائمہ شوروم میں داخل ہوتے ہیں جہاں چچا زبیر اور ایک رشتے دار صداقت پہلے سے موجود تھے۔ چچا عامر کو کہتے ہیں کہ اتنی پیاری بچی کا خیال بھی رکھتے ہو۔
چچا: تم صائمہ کو ریڑائرنگ روم میں لے کر جاؤ۔ میں آتا ہوں۔
عامر صائمہ کو ریڑائرنگ روم میں لے جاتا ہے کہ اچانک چچا آتے ہیں اور کہتے ہیں۔
عامر بیٹا جاؤ تم آئس کریم لے کر آجاؤ۔ میں جب تک صائمہ بٹیا سے گفت شنید کرتا ہوں۔ جاؤ جلدی سے دیر نہ کرو۔
عامر کی آنکھوں میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی تھی اور وہ جلدی سے آئس کریم لینے جاتا ہے۔ جاتے جاتے خوشی میں صداقت کو بھی کہتا ہے کہ وہ انتظار کرے میں آئس کریم لے کر آتا ہوں۔ عامر پندرہ منٹ میں آئس کریم لے کر شوروم واپس آتا ہے، جیسے ہی ریسٹ روم کی جانب بڑھتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ دروازہ اندر سے لاک ہے۔ کمرے کے اندر بالکل خاموشی ہے۔ صداقت زور دار آواز میں ریڈیو سن رہا ہے جس کی آواز گونج رہی ہے۔ عامر تھوڑا پریشان ہے کہ صائمہ کسی طرح چچا کو پسند آ جائے۔
عامر: چچا میں آئس کریم لے آیا۔ دروازہ کھولیں۔
لیکن اندر بالکل خاموشی ہے۔
صداقت ریڈیو سن رہا ہے اور عامر اس کو دیکھتا ہے۔ عامر صداقت کو کہتا ہے۔
دروازہ اندر سے لاک ہے۔
صداقت اطمینان سے جواب دیتا ہے: انٹرویو چل رہا ہے۔ صبر رکھو تھوڑا وقت تو لگتا ہے۔ یہ انٹرویو ویسے بھی کوئی عام انٹرویو نہیں۔
عامر انتظار کرتا ہے اور پھر صداقت سے پوچھتا ہے۔
آخر چچا کر کیا رہے ہیں اندر۔ اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے؟
صداقت عامر کو تھپتھپاتا ہے اور کہتا ہے۔
انٹرویو چل رہا ہے اندر۔ دیکھو ایسے کاموں میں دیر تو لگتی ہے۔ تم انتظار کرو بس۔
عامر بھولے انداز میں کہتا ہے۔
یا اللہ صائمہ بس کسی طرح چچا کو پسند آ جائے۔
صداقت کہتا ہے۔
ارے آ گئی ہے پسند، آ گئی ہے تبھی تو اتنی دیر لگ رہی ہے۔
عامر تعجب سے کہتا ہے۔
آپ کو کیسے پتہ؟
صداقت: بس چھوڑو، ہمیں پتہ ہے نا۔ تم گھبراؤ نہیں۔ چچا کو صائمہ بہت پسند آئی ہے۔ تبھی تو چچا اتنی دیر لگا رہے ہیں کہ صائمہ ان کو پسند آئی ہے۔
عامر صداقت کی طرف بڑھتا ہے اور کہتا ہے چلو ہم دونوں آئس کریم کھاتے ہیں۔ ہماری آئس کریم نہ پگھل جائے۔
وہ دونوں آئس کریم کھا ہی رہے ہوتے ہیں کہ چچا دروازہ کھولتے ہیں۔ عامر چچا کی طرف بڑھتا ہے اور پھر دروازے سے اندر جھانکتا ہے تو اس کی آنکھیں ششدر رہ جاتی ہیں۔ صائمہ اوسان باختہ ریٹائرنگ روم کے صوفے پر اس طرح سے سمٹ کر بیٹھی تھی جیسے اس کی دنیا لٹ گئی ہو۔ عامر کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور صائمہ عامر سے نظر بھی نہیں ملا پا رہی تھی۔ تھوڑی سی آنکھیں اوپر کرکے جب اس نے عامر کو دیکھا تو عامر نے صائمہ کے آنسوؤں میں وہ سب دیکھ لیا جو اس کے ساتھ پیش آیا۔ صائمہ کہتی ہے۔
عامر میں زندگی میں پہلی بار کسی کے ساتھ۔ تم پے اعتبار کرکے اس طرح گھر سے باہر نکلی اور۔
عامر چچا کی طرف دیکھتا ہے، چچا کہتے ہیں۔
بیٹا جو لڑکی اس وقت تمھارے ساتھ گھر سے باہر گھومنے پر آمادہ ہو، تم خود سمجھ سکتے ہو اس کا کردار کیسا ہوگا۔ ایسے کردار کی لڑکی جو بوائے فرینڈ بناتی ہے اور پھر اس کے ساتھ اکیلے نکل پڑتی ہے۔ یہ کہاں سے باعزت لڑکی ہو سکتی ہے۔ ہمارے خاندان کے چشم و چراغ پر ڈورے ڈال رہی تھی۔ اس کو ہم نے بالکل ٹھیک سزا دی ہے۔ ایسی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
عامر: چچا مجھے اس سے بہت محبت ہے اور آپ نے یہ کیا کر دیا۔
چچا: ایسا کیا نیا کر دیا میں نے جو اس نے پہلے نہیں کیا ہوگا۔ آج کل کی لڑکیاں بس اچھے گھر کے لڑکے پھنساتی پھر رہی ہیں۔ یہ شریف لڑکیاں شریف گھرانوں کے لائق نہ نہیں ہوتیں۔
صداقت: مرد بن اوئے عامر کیا عورتوں کی طرح رو رہا ہے۔ ملک زبیر اب اس عاشق کو کیسے خوش کرنا ہے۔
چچا: اس کے لیے ہم "ایک دم جینوئن" کردار کی لڑکی لائیں گے جو ہمارے خاندانی وقار کے مطابق ہو۔ اچھا اب تم اس گشتی عورت کو جہاں سے لائے تھے وہیں چھوڑ آؤ ویسے بھی مجھے عشا کی جماعت میں تاخیر پسند نہیں۔

