Her Khabar Ka Aik Waqt Muqarar Hai
ہر خبر کا ایک وقت مقرر ہے
ہر خبر (کے وقوع) کا ایک وقت ہے اور جلد ہی تم کو معلوم ہو جائے گا۔ (6:67)
چودہ سو پچاس سال پہلے رسول اللہ ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ اگلے ہی روز سے عمرہ کی تیاری شروع کر دی گئی۔ تقریبا 1500 صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بھی اس مقدس سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھی بنے۔ قافلہ روانہ ہوا لیکن کفارِ مکہ کی مزاحمت کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ داخلے سے ہی روک دیا گیا اور حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالنا پڑا۔ کفار کے ساتھ معاہدہ طے ہوا جسکی ایک ایک شرط ایمانی جذبے سے سرشار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کیلئے کڑی آزمائش تھی۔ کفار کی من پسند طے کردہ شرائط پر رسول اللہ ﷺ اور انکے ساتھیوں نے دلوں میں رنج و ملال لئے اللہ کی رضاکی خاطر سر تسلیم خم کیا۔ عمرہ کی ادائیگی کے بغیر ہی رسول اللہ ﷺ کو اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ واپس آنا پڑا لیکن اللہ تعالی کا فیصلہ یہی تھا۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس بات کا قوی ادراک ہونا چاہیئے کہ ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود بھی کوئی کام اسی صورت وقوع پذیر ہو سکتا ھے کہ جب اس میں قادر مطلق کا حکم شامل ہوگا۔ وہ ذات جو ظاہر اور باطن کو خوب جاننے والی ھے، وہ ہماری ضرورتوں سے خوب واقف ھے۔ وہ علیم بذات الصدور ھے، رؤوف بالعباد ھے، سمیع بصیر ھے، قریبٌ مجیب ھے۔ وہ جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ھے وہ ہمیں خود ہم سے بھی بڑھ کر جاننے والا ھے۔
بھلا جس نے پیدا کیا وہی نہ جانے؟ جبکہ وہ بہت باریک۔ بین، مکمل طور پر باخبر ہے۔ (67:14)
کس کو کب کیا دینا ھے یہ اس رب کے فیصلے ہیں۔ کس کوکب اور کتنا رزق دینا ھے، کس کو کب اولاد کی نعمت سے نوازنا ھے، کب بیٹا دینا ھے، کب بیٹی دینی ھے۔ ایک ہی جتنی عمر مین کوئی ایک اپنی زندگی کے حسین لمحات کا اختتام کر رہا ہوتا ھے تو کسی دوسرے پر اسی عمر میں زندگی بھر کی محرومیوں کے بعد خوشیوں کے دروازے کھل رہے ہوتے ہیں۔ وہ حکیم خوب واقف ھے کہ جس کے علم کی وسعت کا اندازہ لگانا ہم انسانوں کے بس کی بات نہیں۔
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے۔ کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جس کا اسے علم نہ ہو، اور زمین کی اندھیریوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں ہے جو ایک کھلی کتاب میں درج نہ ہو۔ (6:59)
وہ جو چاہے تو کیا نہیں ممکن
وہ نہ چاہے تو کیا کرے کوئی!
ہمیں چاہیئے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں کے بارے میں بے جا سوال کر کے انکا ظرف نہ آزماتے پھریں۔ ہم ایسے نہ بنیں کہ کوئی ہمارے ان چبھتے سوالوں کی وجہ سے ہم سےملنے سے، بات کرنے سے ہی کترانے لگ جائے۔
ہم کیوں ایسے بن جاتے ہیں کہ کسی کو اسکی ایک محرومی کا ہر ہر وقت احساس دلا کر اللہ تعالی پر اسکے یقین کو شک میں بدل دیں۔ اپنے رب کی لاتعداد نعمتوں پر شکر گذاری کرنے والے کو بار بار ایک محرومی کا احساس دلا کر نا امید کرنے والے کیوں بن جاتے ہیں ہم۔ جو رب کے فیصلے ہیں ان پہ لوگوں کو الزام دینا چھوڑ دیں۔ اگر ایسا کرنا ھے تو ہم میں سے کوئی بھی اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی سانسوں کو بڑھا کر یا کم کر کے ہی دکھا دے۔
امید بنیں، نا امیدی نہیں۔۔۔۔ یقین بنیں، شک نہیں۔۔۔۔ ھمدرد بنیں، ٹوہ لگانے والے نہیں۔۔۔۔ حوصلہ بنیں، مایوسی نہیں۔۔۔۔ رحمت بنیں، زحمت نہیں۔۔۔۔
راهِ نجات اسلام کو مکمل اپنانے میں ہے۔