Yaadon Ki Baraat (2)
یادوں کی بارات (2)
آپ جہاں بھی ہوں آپ کو اپنے مزاج کے لوگ مل ہی جاتے ہیں، یاسر میرے مزاج کے عین مطابق تھا، کالج میں ہم کم ہی ملتے تھے کیونکہ عدنان کی طرح یاسر کا سیکشن بھی علیحدہ تھا کبھی سرسری ملاقات ہوبھی جاتی تھی لیکن ہاسٹل میں آتے ہی ہم دونوں مقناطیس کی طرح مل جاتے تھے، راتوں کو محفلیں جمنے لگیں یاسر ان محفلوں کی جان ہوتا تھا، ہر روز کوئی نہ کوئی مسکین جگتوں کا نشانہ بنتا تھا، ان مسکینوں میں خانیوال کا عمران سر فہرست تھا اس کو تنگ کرنے کا بہت مزہ آتا تھا۔
ہاسٹل میں بہت سے چھوٹے چھوٹے گروپ بنے ہوئے تھے جو راتوں کو جاگتے تھے اور مستیاں کرتے تھے جن میں سے ایک گروپ میں فیصل آباد سے ڈاکٹر طاہر، محسن، گوجرہ سے مظہر منظور، آزاد کشمیر سے عمر صدیق، اٹک سے آغا عمار تھے سارے بہت ہی شغلی تھے یہ گروپ بھی راتوں کو جاگتا تھا دن میں کالج سے آنے کے بعد یہ لوگ کم ہی نظر آتے تھے لیکن راتوں کو الووں کی طرح جاگتے تھے ان کے ٹارگٹ کینٹین والے چاچا یا جمیعت کے لوگ ہوتے تھے، یہ گروپ بھی ہمارے دوستوں میں سے تھا، وقت گزرتا رہا سالانہ امتحان شروع ہو گئے سب دوستوں نے بڑی محنت سے امتحان پاس کر لیا تو اب سالانہ سپورٹس میلہ شروع ہو گیا میں نے اور عدنان نے بیڈمنٹن میں حصہ لیا اور فائنل تک رسائی حاصل کر لی، فائنل سے ایک دن پہلے عدنان صاحب کو ایک مشکوک ملاقات کے لیے گوجرانوالہ جانا پڑ گیا، دوسرے دن جب مخالف ٹیم نے مقابلے کے لیے بلایا تو میں نے انھیں بتایا کہ عدنان کسی ایمرجنسی کی وجہ سے گھر گیا ہوا ہے، وہ واپس آئے گا تو ہی میچ ہوسکے گا۔ ان کی مہربانی کہ وہ چلے گئے۔
میرا عدنان سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا، دوسرا دن بھی گزر گیا تو رات کو عدنان کا فون آیا تو کہنے لگا کہ میں مزید دو دن نہیں آسکتا، کیونکہ آپ کی نہ ہونے والی بھابھی کی منگنی ہو رہی ہے آپ کوئی بہانہ لگا دو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور دوسری ٹیم کو بتایا کہ عدنان کے تایا ابو کا دو دن پہلے انتقال ہو گیا ہے وہ دو دن بعد آئے گا اس طرح میچ پھر معطل ہوگیا۔ دو دن بعد جب عدنان آیا تو اسے بتایا کہ میں نے کہا تھا کہ عدنان کے تایا کا انتقال ہو گیا ہے ذرا اسی حساب سے ہینڈل کر لینا، عدنان صاحب جونہی کمرے میں آئے ہاسٹل کے لوگ فاتحہ کے لیے حاضر ہونے لگے اور ہم زندہ تایا کے لیے ہفتہ بھر دعائے مغفرت کرتے رہے۔
میں روز عدنان کو بلیک میل کرتا کہ مجھے باہر کھانا کھلاؤ ورنہ میں ناظم صاحب اور ہاسٹل کے دیگر طلباء کو تمھارا سچ بتا دو گا۔ اس طرح عدنان مجھے اور یاسر کو مجبورا باہر کھانا کھلاتا رہا، یاسر کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا ہم ہر مہینے پرانی انارکلی جایا کرتے تھے وہاں پرانی کتابوں کا بازار لگا کرتا تھا، یاسر وہاں سے بہت ساری کتابیں خرید لاتا اور میں مفت میں ہی اس کے اعلی ادبی ذوق سے فائدہ اٹھاتا رہا۔
اگر کسی شخص نے اپنی زندگی کا کوئی حصہ ہاسٹل میں نہیں گزارا تو سمجھ جاؤ اس نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑے لطف سے محروم رکھا ہے ہاسٹل کے کھانے، شوربے میں ڈوبکیاں کھاتی ہوئی ترکاری، آلو قیمہ، رمضان میں کینٹن پر ہجوم، کمرہ ایک کا اور قیام آٹھ کا، ہاسٹل وارڈن کے چھاپے اور غیر قانونی رہائشیوں کے مشورے بیت الخلاء کی وہ خاص مہک جو چودہ طبق روشن کر دے، دوسرے کی چیزیں اس سے پوچھے بنا ہی استعمال کر لینا غرضیکہ کیا کیا یاد کیا جائے۔
چاولوں کا دشمن عمر کشمیری بھی شاندار کردار کا مالک تھا۔ اسے ہر ہاسٹل کے میس کا پتا ہوتا تھا، کب کس ہاسٹل میں چاول میں پکتے ہیں۔ غذائی لحاظ سے وہ بنگالی لگتا تھا۔ محسن عظیم الجثہ انسان تھا بہت رونقی انسان اسکا کام طلباء کو سگریٹ پہ لگانا تھا، اس کی وجہ وہ یہ بتاتا تھا کہ سگریٹ پینے والے لوگ کانفیڈنٹ ہوتے ہیں طاہر بشیر ڈاکٹر تو نہیں تھا لیکن شکل سے ڈنگر ڈاکٹر لگتا تھا، یاسر نے اسے ڈاکٹر کی اعزازی ڈگری دے رکھی تھی جس کی وجہ سے سارے دوست اسے ڈاکٹر کہتے تھے یونیورسٹی کے آخری سال میں یاسر کو ایک لڑکی سے عشق ہو گیا بس پھر میں اور یاسر ساری ساری رات عشق و محبت کے فلسفوں پہ بات کرتے رہتے۔ یاسر کو کتابیں پڑھنے کا جنون تھا، تاریخ، مذہب، فلسفہ اور شاعری اس کے پسندیدہ موضع تھے، دن کے پانچ سے چھ گھنٹے لائبیرری میں گزارتا تھا، اور شام کو ہاسٹل کے باہر بیٹھ کر دن بھر کی تحقیق مجھے سناتا تھا۔
25 جولائی ہمارا ہاسٹل کا آخری دن تھا۔ سب دوست بکھر گئے کچھ قائداعظم یونیورسٹی چلے گئے، مظہر نے بی کام کے دوسرے سال آرمی جوائن کر لی، مگر میں اور یاسر مزید ایک سال اکھٹے لاہور ہی میں رہے، 2005 میں میری جاب ہو گئی اومیں گجرانوالہ آگیا، مگر میں اور یاسر ہمیشہ رابطے میں رہے دوسرے دوستوں سے ملاقات کم ہی ہوتی تھی۔ 2007 میں یاسر اے سی سی اے کے لئے انگلینڈ چلا گیا، پھر بھی ہمیشہ رابطے میں رہا، ہر سال آتا رہا۔ میں، یاسر اور عدنان اکثر اپنی یادیں تازہ کرنے اپنے ہاسٹل جایا کرتے تھے، خوب گپ شپ ہوتی، ایک دن رہتے اور پھر واپس آجاتے۔
2013 میں انگلینڈ میں قیام کے دوران ہی یاسر کو بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی اور ٹھیک ایک سال بعد یاسر ہمارے لئے اپنی انمول یادوں کا تحفہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گیا۔ اللہ کریم اس کی مغفرت کریں اور اس کو جنت الفردوس میں خاص مقام عطا کریں۔ سالوں بعد سوشل میڈیا کی وجہ سے باقی سب دوستوں سے بھی رابطہ استوار ہو گیا مظہر منظور آج پاکستان آرمی میں میجر ہے، شیخ سلمان سول جج، عدنان خشمت بحریہ یونیورسٹی میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ، محسن کامیاب بزنس مین اور عمر صدیق آئیل اینڈ گیس میں سینئر پوزیشن پہ براجمان ہے، اللہ کریم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں، ہاسٹل کے ماہ و سال سرمایہ حیات ہیں اور یادوں کی بارات ہیں۔