Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Ahmed Batth
  4. Yaadon Ki Baraat (1)

Yaadon Ki Baraat (1)

یادوں کی بارات (1)

ہم اچانک نہیں مرتے، ہماری محبتیں، ہمارے دوست، ہمارے پیارے، ہماری یادیں، یہ دھیرے دھیرے ہمیں چھوڑ جاتے ہیں اور ہر بچھڑتی یاد کے ساتھ ہماری ذات کا ایک حصہ بھی دفن ہوجاتا ہے، ان یادوں اور وجود کے ان حصوں کو دفناتے دفناتے ایک دن ہم خود بھی مر جاتے ہیں، ہم ایک دم نہیں مرتے، ہم دھیرے دھیرے مرتے ہیں۔

کل میجر مظہر کی کال آئی کہ میری پوسٹنگ سیالکوٹ سے بلوچستان ہو گئی ہے میں آپ کو گاؤں ملنے آ رہا ہوں، مظہر کا تعلق گوجرہ سے ہے، میں اور مظہر ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں کلاس فیلو رہے ہیں، دوسرے دن اسے گھر کی گوگل لوکیشن بھیجی اور وہ سیدھا گھر کے دروازے تک آ گیا، سلام دعا کے بعد ہاسٹل کے دنو ں کی باتیں شروع ہو گئیں اور وہ سارے قصے اور دوست یاد آتے گئے جن کے ساتھ ہاسٹل کا شاندار دن گزارے تھے۔

دوست ستاروں کی مانند ہوتے ہیں دور ہو کر بھی اپنی روشنی سے اپنے پاس ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، ان کی یادیں سمندر کی لہروں کی طرح ساحل سمندر سے ٹکراتی رہتی ہیں، یادیں اگریونیورسٹی کے زمانے کی ہوں تو وہ آپ کو ہمیشہ بے چین رکھتیں ہیں، 3 اکتوبر 2003 کو پنجاب یونیورسٹی ہیلی کالج آف کامرس میں میرا پہلا دن تھا۔

ہاسٹل تو الاٹ ہو چکا تھا، مگر کمرہ ابھی الاٹ نہیں ہوا تھا، ہال کا نام تھا عمر فاروق اور نمبر تھا 15، کالج کے بعد ہاسٹل آیا تو کمرہ کے حصول کے لئے ہوسٹل وارڈن سے رابطہ کیا تو انھوں نے جمیعت اسلام جو سٹودنٹس کی یونین تھی ان کے دفتر بھجوا دیا کہ الاٹمنٹ کیلیئے ناظم ہاسٹل کی مشاورت ضروری ہے وہ ہی آپ کو آپ کے کمرہ کے متعلق بتائیں گے اسی اثناء میں ناظم ہاسٹل نیازی صاحب لسٹ پکڑے ہاسٹل کے مین ہال میں نمودار ہوئے، مختلف شہروں سے آئے ہوئے لڑکے ان کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے۔

کمروں اور لڑکوں کی گنتی کے بعد وہ روم نمبر ایک سے شروع ہوئے، درو ازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے تین کامیاب جوان نمودار ہوئے ناظم صاحب کو نمسکار کیا تو ناظم صاحب نے حکم دیا کہ کل سے کمرہ خالی کردو کیونکہ نئے سیشن کے سٹوڈنٹس آگئے ہیں، ہاسٹل دو منزلہ تھا نیچے والے حصے کے تمام کمروں میں تین سے چار سٹوڈنٹس کی گنجائش تھی جبکہ بالائی منزل والے کمرے دوسرے سال الاٹ کیے جاتے تھے جن میں گنجائش تو دو سٹوڈنٹس کی ہوتی تھی لیکن وہ الاٹ ایک ہی سٹوڈنٹ کو کیا جاتا تھا تاکہ وہ مکمل توجہ سے دوسرے سال کے امتحان کی تیاری کر سکیں۔

پہلے کمرے کے بعد ناظم صاحب دوسرے کمرے کی جانب بڑھے تو میں نے بھی ناظم صاحب سے درخواست کی کہ مجھے بھی کمرہ الاٹ کر دیں انھوں نے میرا نام اور شہر پوچھا اور کہنے لگے کیا یاد کرو گے روم نمبر دو تمھیں الاٹ کیا پھر پوچھا کوئی اور گوجرانوالہ سے ہو اور روم نمبر دو میں رہنا پسند کرے اسی اثناء میں پیچھے سے آواز آئی کہ سر میرا نا م عدنان حشمت ہے اور میں بھی گوجرانوالہ سے ہوں پر میں نے دو نمبر کمرے میں نہیں رہنا، سب ہنسنے لگے، اس پر ناظم صاحب نے کہا کہ آپ کسی کو نہ بتانا کہ آپ دو نمبر کمرے میں رہتے ہیں آپ کہنا میں روم نمبر ٹو میں رہتا ہوں، عدنان کو مشورہ پسند آیا۔ ناظم صاحب نے جب روم نمبر دو کا درازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے چار پانچ کامیاب جوان نمودار ہوئے، سلام دعا کے بعد ان کو بھی حکم دیا کہ مکاں کے مکین آگئے ہیں آپ اپنا بندوبست کریں۔

یوں میں اور عدنان روم نمبر ٹو المعروف دو نمبر کمرہ کے مکین ٹھہرے۔ کامیاب جوانوں میں سے محمد آصف ڈیرہ غازی خان سے تھا اور حبیب احمد بہاولپور سے تھا، باقی دو کا نہ ہم نے نہ پوچھا نہ انھوں نے بتایا۔ مختصر سے تعارف کے بعد ہم نے ان سے ان کے تعلیمی سیشن کے متعلق پو چھا تو دونوں نے بتایا کہ ہم اوپن یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس ہیں، ہم حیران ہوئے کہ یہ تو پنجاب یونیورسٹی کا ہاسٹل ہے اور یہ اوپن یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس ہیں، جس پر انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ یہاں غیر قانونی رہ رہے ہیں۔ اتنے میں دو عدد جوس آگئے جو انھوں نے ہمیں رشوت کے طور پر پلائے، اور دوخواست کی کہ مل جل کر رہنے میں برکت ہے۔

آصف نے بتایا کہ دیگر دو لوگ تو آج ہی چلے جائیں گے پر ہمیں آپ لوگوں کو کچھ دن برداشت کرنا پڑے گا، کیونکہ ہمارے امتحان چل رہے ہیں، اگر ہمیں یہاں رہنے دیا جائے تو ہم ممنون ہوں گے ہم نے بھی اجازت دے دی کہ چلو کچھ دن میں چلے ہی جائیں گے اور یوں ہم اور کامیاب جوان ہنسی خوشی رہنے لگے۔ کالج میں بی کام کے غالبا تین سیشن تھے، ایف ایس سی، ڈی کام اور آرٹس گروپ، عدنان چونکہ ایف ایس سی کر کے آیا تھا اس لئے اس کا سیشن مجھ سے الگ تھا، کالج جاتے تو ہم اکھٹے تھے مگر وہاں ملتے بہت کم تھے، عدنان بہت لائق لڑکا تھا گوجرانوالہ بورڈ کا پوزیشن ہولڈر بھی تھا، انتہائی محنتی، صاف گو، شکل سے انتہائی مسکین مگر آنے والے دنوں نے بتایا کہ مسکیں وہ صرف دکھتا ہے، ورنہ کارنامے اس کے فیصل آبادیوں والے ہی تھے۔

اس کی حسِ مزاح بہت اچھی تھی، کالج کے بعد ہاسٹل میں چلے جاتے اب ہاسٹل میں موجود دیگر لڑکوں سے بھی تعارف ہونے لگا تھا، عدنان نظم و ضبط کا پابند لڑکا تھا، کالج کے بعد تین گھنٹے سوتا تھا، پھر رات کو دیر تک پڑھتا تھا، میں دن میں نہی سوتا تھا اس لیے کمرے میں موجود غیر نصابی کتابیں پڑھا کرتا تھا، یہ ساری کتابیں آصف کی تھیں اس کا ذوق بہت اچھا تھا، بہت اعلی درجے کی کتابیں ہوتیں تھیں اس کے پاس قدرت اللہ شہاب، ممتازمفتی اور اشفاق احمد کی بہت سی کتابیں تھیں جو مجھے بھی پڑھنے کو ملیں۔

انہی دنوں میری یاسر رشید سے ملاقات ہوئی اس کا تعلق فیصل آباد سے تھا، بلا کا ذہین، محنتی، خوش شکل اور خوش مزاج لڑکا تھا چونکہ تعلق فیصل آباد سے تھا اس لیے جگتوں کا بھی ماہر تھا، اس جیسا با ذوق شخص آج تک نہیں دیکھا۔ وہ چاہے میوزک ہو، کتاب ہویا فلم ہو ہر چیز میں اس کے ذوق کی داد دینی پڑتی۔ یاسر کا اک روم میٹ فیصل آباد سے شیخ سلمان بھی تھا بہت نفیس اور ذہین لڑکا تھا، اس کے ساتھ بھی بہت شغل لگتا تھا۔

جاری۔۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid