Siasi But Parasti
سیاسی بت پرستی
ود، سراع، یغوث، یعوق، اور نسر قوم نوح کے بزرگ تھے۔ جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو ابلیس نے ان کے عقیدت مندوں سے کہا کہ ان بزرگوں کی مورتیاں اور تصویریں بنا کر اپنے گھروں میں نصب کر لو تاکہ تم کو ان کی یاد آتی رہے۔ اور ان کو دیکھ کر تم بھی نیک عمل کر سکو۔ اب یہ مورتیاں اور تصویرں بنا کر رکھنے والی قوم مرچکی تو ابلیس نے اگلی نسل کو ان مورتیوں اور تصویروں کی عبادت میں لگا دیا اور اس طرح باقاعدہ بت پرستی شروع ہوئی۔
جزیرہ نمائے عرب بت پرستی کا گڑھ تھا، بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خانہ کعبہ میں 360 کے قریب بت رکھے ہوئے تھے۔ بت پرستی کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے پسندیدہ بتوں کو اپنی جیب میں ڈالے پھرتے تھے۔ بت پرست کو یقین ہوتا تھا کہ یہ ان کے حاجت روا ہیں۔ اسی لیے وہ چڑھاوے چڑھاتے اور منتیں مانتے تھے۔ اس وقت بھی ماننے والوں کی زیادہ تعداد غریب غرباء کی ہوتی تھی۔
دولت مند اس دور میں بھی رسمی پوجا پاٹ ہی کرتے تھے۔ عام لوگوں کو ڈراتے تھے اور چڑھاوں کی مد میں ملنے والی رقم پر ہاتھ صاف کرتے تھے۔ اس دور کو دور جہالت کہا جاتا ہے۔ کیونکہ لوگ جانتے بوجھتے بھی ان بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ جن کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ یہ اپنے جسم پہ بیٹھی مکھی تک نہیں اڑا سکتے۔ بت پرستی کی یہ لعنت نبی پاک کی آمد سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی اور لوگ ایک خدا کو ماننے لگے۔
لگتا ایسا ہے کہ اب بت پرستی کی جگہ شخصیت پرستی نے لے لی ہے۔ شخصیت پرستی کا یہ جن قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ شخصیات کی پرستش ان کے دماغ خراب کردیتی ہے اور ایک معمولی سا انسان خود کو مافوق الفطرت سمجھنے کی حماقت میں مبتلا ہو کر خود اپنا بیڑہ غرق کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پجاریوں کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ ہمارے سیاسی لیڈران کا یہی المیہ ہے۔
موجودہ حالات میں سیاسی اور شخصی بت پر ستی اپنے عروج پر ہے جس طرح دور جہالت میں ہر قبیلے کا اپنا بت ہوتا تھا آج کے دور میں ان قبیلوں کی جگہ سیاسی پارٹیوں نے لے لی ہے اور اپنے اپنے بتوں کی پرستش عروج پر ہے۔ اس وقت بھی پجاری غریب غرباء تھے۔ اب بھی حالات ویسے ہی ہیں۔ نعرہ مارنے، مار کھانے، جیلیں کاٹنے کا کام غریبوں کے ذمے ہی ہے۔ اقتدار کی مسند پہ راج آج بھی لات و منات کا ہی ہے۔
یہ سیاسی بت پرستی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ان بتوں کے ماننے والے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن چکے ہیں اور سارے رشتے ناتے بھول گئے، باپ بیٹے کا دشمن تو بھائی بھائی کا دشمن، کوئی فرد کسی کو سننے کو تیار نہیں ہر کوئی اپنے بت کی محبت میں دوسرے سے نفرت کر رہا ہے، گالیاں دے رہا ہے، غدار اور وطن فروشی کے طعنے دے رہا ہے۔ نفرت کا یہ بیج اب توانا درخت بن چکا ہے۔ کل ایک دوست بتا رہا تھا کہ ان کے محلے میں بیٹے نے باپ کو تھپڑ رسید کیا ہے وجہ بیٹے کے بت کی تضحیق ہوئی تھی۔ لوگ برملا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر آپ کا تعلق بت پرستوں کے فلاں قبیلے سے نہیں ہے تو ہمارا آپ سے جینا مرنا ختم۔
سوشل میڈیا پہ وہ طوفان بدتمیزی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ذرا ہوش کے ناخن لو اس سیاسی بت پرستی نے نہ پہلے عوام کو کچھ دیا ہے اور نہ آئندہ کوئی امید ہے۔ یہ سارے رانگ نمبرز ہیں ان کے اپنے مفادات ہیں۔ آپ صرف سیاست کی آگ کا ایندھن ہیں۔
آپ کی پرستش کا حقدار صرف اور صرف ملک پاکستان ہے پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ عراق، شام، اور لیبیا کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔
ہمارے آباء و اجداد نے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر جس ملک کو حاصل کیا تھا۔ اس کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ جس میں مسلمانان برصغیر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم سیاسی اور مزیبی گروہ بندیوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس سیاسی بت پرستی نے حالات اس نہج پر پہنچا دئیے ہیں کہ ہمیں عراق اور شام بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ پاکستانی بنو اور قیام پاکستان کے مقصد کو پہچانو۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ملک پاکستان کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سب کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی، اور سچے پاکستانی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔