Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Ahmed Batth
  4. Nakam Mulazmeen Ki Kahani

Nakam Mulazmeen Ki Kahani

ناکام ملازمین کی کہانی

یونیورسٹی اور کالج سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات کے پاس روزگار کے لیے دو آپشن ہوتے ہیں ذاتی کاروبار یا پھر نوکری، طلبہ و طالبات کی اکثریت جاب کرنا پسند کرتی ہے کاروبار نہ کرنے کی بنیادی وجہ سرمائے کی کمی، بنیادی کاروباری تربیت اور تجربے کا نہ ہونا ہے، ایک بہت بڑی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جو آپ کو کاروبار کرنے کی ترغیب دیتا ہی نہیں اور حکومتی سطح پر بھی ایسی کوئی کاوش نظر نہیں آتی جہاں یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو بلا سود اور مناسب وقت کے لیے قرضے دئیے جائیں اور بنیادی کاروباری تربیت دی جائے۔

طلبہ و طالبات کی غالب تعداد نوکری کو ہی ترجیح دیتی ہے، انٹرویو میں ان سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ یہ نوکری کیوں کرنا چاہتے ہیں تو ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ میں اپنی تعلیم اور صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ادارے کے مشن اور مقاصد میں معاون ثابت ہوں گا اور نیک نیتی سے کام کروں گا، جبکہ اصل صورت حال اس سے بلکل مختلف ہوتی ہے۔

حکومت کے لیئے بھی ممکن نہی ہوتا کہ وہ تمام طلبہ و طالبات کو سرکاری نوکری مہیا کر سکے، سرکاری نوکری بھی لوگ اس وجہ سے نہی کرتے کہ بہتر طریقے سے ادارے اور ملک کی خدمت کریں گے بلکہ مقصد صرف سوشل سٹیسٹس اور پکی نوکری ہوتا ہے۔

طلبہ و طالبات کی بہت کم تعداد سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اور باقی ماندہ طلبہ و طالبات کو پرائیویٹ اداروں کا رخ کرنا پڑتا ہے ان اداروں کے لیے وہی لوگ کارآمد ہوتے ہیں جو ادارے کی بہتری، ترقی اور منافع میں اضافہ کے لیے کام کرتے ہوں، شوبز کے علاوہ پرائیویٹ اداروں کو آپ کی خوبصورتی سے کوئی غرض نہیں ہوتی، ان کو صرف کام چاہیے ہوتا ہے بہت سے طلبہ و طالبات بڑی بڑی ڈگریوں کے باوجود یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کہ جس ادارے میں انٹرویو دینے جا رہے ہیں اس کے مقاصد اور ضروریات کیا ہیں وہ کیسا سٹاف چاہتے ہیں، انٹرویو دینے کا طریقہ کار اور اصول کیا ہے، اس سارے مرحلوں سے وہ تقریبا لاعلم ہوتے ہیں ان کی مکمل توجہ صرف نوکری کا حصول ہوتا ہے۔

انٹرویو دیتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے ہیں، پسینے سے شرابور اور خوف سے برا حال ہوتا ہے، نہ ان کو بولنا آتا ہے، نہ سننا اور نہ ہی ٹھیک سے لکھنا آتا ہے، ای میل تک کرنا نہی آتی، ان کو ٹھیک سے سی وی بنانا بھی نہیں آتا، اس ساری ناکامی کا کریڈٹ ان یونیورسٹی اور کالجز کو جاتا ہے جنہوں نے ڈگری دے دی مگر ان کو اس قابل نہیں بنایا کہ وہ ایک کارآمد ملازم بن سکیں، کسی حد تک اس میں قصور ان طلبہ و طالبات کا بھی ہے جن کا مقصد صرف ڈگری لینا اور پھر اس ڈگری کے سہارے نوکری کی تلاش ہے۔

دوران تعلیم بہت کم طلبہ و طالبات کو اپنے تعلیمی مقاصد کا ٹھیک سے ادراک ہوتا ہے، تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جب ملازمت حاصل کرنے کا وقت آتا ہے تو پھر یہی لوگ جگہ جگہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں کوئی نوکری نہیں دیتا اور پھر ریفرنس اور سفارشیں ڈھونڈی جاتی ہیں کچھ طلبہ و طالبات نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان میں کم تعداد ہی اپنی تعلیمی قابلیت اور محنت کے سہارے کامیاب ہوتی ہے۔

اداروں کو بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کم تجربہ کار اور کم تعلیم یافتہ لوگ رکھنے پڑ جاتے ہیں، نوکری کے حصول کے بعد اگلا مرحلہ نوکری میں ترقی کا ہوتا ہے عمومی طور پر نئے آنے والے طلبہ و طالبات کیریئر پلاننگ کے حوالے سے مکمل لاعلم ہوتے ہیں، کیریئر پلاننگ انھیں سکھائی ہی نہی جاتی انھیں تو صرف نوکری چاہیئے ہوتی وہ ترقی تو کرنا چاہتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ بڑے عہدے کے لیے تعلیم وتربیت، لگن، ایمانداری اور وقت چاہیے ہوتا ہے۔

ملازمت میں آنے والے ان طلبہ و طالبات کی تنخواہ شروع میں کم ہوتی ہے جو عمومی طور پر 30 سے 40 ہزار کے درمیان ہوتی ہے جو تھوڑے عرصے بعد ان کو قلیل لگنا شروع ہو جاتی ہے، ادارے نئے آنے والے لوگوں کو بنیادی تربیت فراہم کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مختلف نوعیت کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے تاکہ ان کے ملازم ادارے کے لیے کارآمد بن سکیں اور ہر ادارہ یہ بنیادی ضروری تربیت لازمی فراہم کرتا ہے۔

بہت سے ملازم بجائے اپنی استعداد کار بڑھانے کے دیگر غیر ضروری سرگرمیوں میں مشغول ہو جاتے ہیں وہ یہ تو ضرور چاہتے ہیں کہ ان کی تنخواہ سپروائزر یا مینیجر کے مطابق ہو لیکن اس عہدے اور تنخواہ کے حصول کے لیے درکار محنت نہیں کرتے اور ایک ایسی غیر ضروری روش کا شکار ہو جاتے ہیں جس میں سوائے اپنے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، وہ ہر وقت ناکامی کا رونا روتے ہیں، ہمدردیاں ڈھونڈتے ہیں گروپنگ کرتے ہیں ادارے کو برا بھلا کہتے ہیں، نئے آنے والوں کو ڈراتے ہیں مگر محنت پھر بھی نہی کرتے، نوکری ڈھونڈتے ہوئے جن مقاصد کے وہ دعویدار تھے اسے مکمل فراموش کر چکے ہوتے ہیں ان کا مقصد گھومنے والی کرسی، بڑی گاڑی، اچھی تنخواہ اور سوشل سٹیٹس رہ جاتا ہے۔

تنخواہ چونکہ کم ہی رہتی ہے اسلئیےپھر وہ رشوت خوری، بلیک میلنگ اور لالچی پن کا شکار ہو کر کیریئر پلاننگ کو مکمل طور پر فراموش کر بیٹھتے ہیں، اس پانچ چھ سال کے عرصے کے بعد نہ وہ ملازمت میں کوئی ترقی کرتے ہیں اور نہ کچھ اور کرنے کے قابل رہتے ہیں پھر وہ ایک ہی وقت میں بزنس کرنے، ملک سے باہر جانے اور کوئی نئی جاب تلاش کرنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں اور وہ پہلے دو آپشن میں تقریبا ناکام رہتے ہیں، پرائیویٹ اداروں میں چونکہ پنشن اور جاب سکیورٹی سرکاری ملازمت کی نسبت کم ہوتی ہے اس لیئےان اداروں کے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا آسانی سے سوچ لیتے ہیں، بار بار ادارے بدلنے سے استداد کار بھی نہیں بڑھتی اور تنخوہ بھی ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھ پاتی یا دیگر ادارے دیتے ہی نہیں۔

نئے آنے والے طلبہ و طالبات کو مشورہ ہے کہ دوران تعلیم اپنی استعداد کار بڑھایئں، انگریزی لکھنا اور بولنا سیکھیں، دنیا کی بہترین ریسرچ اور علم آپ کو انگریزی زبان میں ہی ملے گا، اپنی ڈریسنگ، بول چال، معاملہ فہمی، آفس مینجمنٹ جیسی ضروری چیزیں لازمی سیکھیں تاکہ ملازمت تلاش کرنے میں آسانی رہے، یاد رکھیں کوالٹی کی ہمیشہ ڈیمانڈ رہتی ہے، آپ کہتے ہیں نوکری نہی ملتی میں کہتا ہوں 100 لوگوں میں سے کام کا ایک ملازم نہی ملتا اس لیے پہلے اپنے آپ کو کارآمد بناو، جہاں جاب کے لیے جاو اس ادارے کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرو، اگر نوکری مل جائے تو ایمان داری سے مسلسل محنت کرو، ادارے کی ضرورت بن جاو، نئے نئے آئیڈیاز پہ کام کرو پھر دیکھنا اپنی ترقی کی رفتار۔

ادارہ جاتی اور معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یونیورسٹی اور کالج طلباء و طالبات کو ضروری تربیت دیں، بزنس کمیونٹی کے ساتھ مل کر طلبہ و طالبات کے لیئے انٹرنشپ پروگرامز کا بندوبست کریں، بزنس کے نئے آئیڈیاز اور ملازمت کے بنیادی اصولوں سے آگاہی دیں، دوسری طرف حکومت کو بھی چاہیے کہ کالج و یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کے لیے روزگار کے مناسب موقع فراہم کرے جو طلبہ کاروبار کرنے کے خواشمند ہوں ان کے لیے ضروری سرمآیہ اور تربیت کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ معاشرتی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں بصوررت دیگر پڑھے لکھے طلبہ کے پاس سوائے یورپ کی ڈنکیاں لگانے کے کوئی اور زریعہ روزگار نہی بچے گا۔

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib