Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Ahmed Batth
  4. Har Ilm Kitabi Nahi Hota

Har Ilm Kitabi Nahi Hota

ہر علم کتابی نہیں ہوتا

ادریس مہر ہمارا بہت قدیمی اور قریبی دوست ہے، بڑا باذوق اور بڑا ملنسار آدمی ہے، گھومنے پھرنے کا جنون کی حد تک شوقین ہے، رات دو بجے بھی اسے خیال آجائے تو وہ فوری طور پر اکیلا ہی شمالی علاقہ جات نکل جاتا ہے۔

کہتا ہے مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن ایک حادثے کی وجہ سے پڑھ نہیں سکا، ورنہ میں نے سول سرونٹ ہونا تھا، مزاجاََ وہ اب بھی سول سرونٹ ہی ہے ہر ایک کے کام آتا ہے۔ ہمیشہ مسکراتا رہتا ہے، وہ کہتا ہے کہ سنجیدگی موت ہے۔ معاشرتی نمودونمائش سے مکمل آزاد، کسی چیز کا لالچ نہیں جو کچھ اس کے پاس ہے اس پہ مکمل خوش۔

پڑھ نہ سکنے پر ہمیشہ اداس ہوتا ہے اور اس حادثے کو یاد کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ علم جیسی نعمت سے محروم رہ گیا، اور اس واقعہ کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے، کہتا ہے کہ 1990 کی بات ہے میرا میٹرک کا امتحان ہونے والا تھا اور تیاری زوروشور سے جاری تھی، سردیوں کی راتوں میں جاگتا رہتا اور خوب تیاری کر رہا تھا۔ پورے خاندان میں سے میں ہی واحد لڑکا تھا جو میٹرک کر رہا تھا، پورے گاؤں میں سے صرف تین لڑکے تھے جو میٹرک کا امتحان دینے والے تھے، وہ دونوں زمینداروں کے تھے میں اکیلا آرائیوں کا لڑکا تھا۔ گاؤں میں پرائمری تک کا سکول تھا، میٹرک کے لیے 01 کلومیٹر دور جانا پڑتا تھا۔

میرا ارادہ تھا کہ میڑک کے بعد ایف ایس سی کے لیے لاہور جاؤں گا۔ سارے گاؤں والے خاص طور پر محلے والے بڑی عزت کرتے تھے کہ آرائیوں کا لڑکا میٹرک کر رہا ہے ہمارا ویسے تو چھوٹا سا تھا لیکن کافی رونق لگی رہتی، گاؤں میں اکا دکا چوری کی وارداتیں بھی ہو تی رہتیں تھیں۔ پرانے وقتوں میں چوری ڈکیتی کا پتا لگانے کے لیے کھوجی پر انحصار کیا جاتا تھا، کچھ ماہر کھوجیوں کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوتی تھی، جدت اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے کھوجی آج کے دور کی ضرورت نہیں رہے۔

آج کے دور کے سوراغ رساں کتے، فنگر پرنٹس، ائیرپورٹ اور بندرگاہوں میں منشیات پکڑنے والے آلات بھی ان کھوجیوں کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں ماہر کھوجی ٹرینگ یافتہ کتوں سے زیادہ ذہین ہوتے تھے وہ صرف پاؤں کے نشانات پر ہی دھیان نہیں دیتے تھے بلکہ بہت سی دیگر نشانیوں کو بھی ذہن اور دماغ میں محفوظ کرتے لیتے تھے اور ان نشانیوں کی مدد سے وہ چوروں کو باآسانی پکڑ لیتے تھے، بعض دفعہ کھوجی مجرموں کو بچا بھی لیتے تھے، بہرحال ایک کھوجی بھی اسی معاشرے میں رہتا ہے اس کی رشتہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور سماجی تعلقات بھی، دباؤ اسے مجبور بھی کرتا ہے کہ وہ کھُرا گم ہونے کا بہانہ کر دے لیکن ایسے واقعات اکادکا ہی ہوتے تھے ایسے ایسے ذہین کھوجی گزرے ہیں کہ پکی سڑک، اور برستی بارش میں بھی کھرا تلاش کر لیتے تھے اور مجرم کی شناخت کر لیتے تھے۔

ادریس کہتا ہے کہ مجھے لگتا تھا کہ کھوجی سارے فراڈ ہوتے ہیں نہ تو یہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹرینگ لی ہوتی ہے یہ صرف دیہاتی لوگوں کو جال میں پھنساتے ہیں جبکہ یہ خود وارداتیے ہوتے ہیں خود کو سچا اور ماہر ثابت کرنے کے لیے چھوٹی موٹی چوری کا سراغ لگا کر لوگوں کا مال بٹورتے ہیں یہ واردات بھی ان کے کسی جاننے والے نے کی ہوتی ہے میرے اس شک کی ٹھوس وجہ اس کے گاؤں میں ہونے والی ایک چوری تھی، جس میں ہمارے محلے کے چاچے فیروز کی بھینس چوری ہوتی ہے اور کھوجی ہمارے سکول کے ماسٹر غلام نبی کے چھوٹے بھائی کو نامزد کر دیا تھا وہ بیچارہ دو سال جیل میں رہا تھا جبکہ واردات کھوجی کے بھتیجے نے کی تھی جو کہ کسی جگہ واردات کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا۔ اس لیے میرے نزدیک کھوجی فراڈئیے ہوتے ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ جن دنوں میں میرے میٹرک کے امتحان چل رہے تھے وہ سردیوں کے دن تھے، میں ساری رات جاگتا اور دن کو سوتا تھا اور ساری رات جاگ کر امتحان کی تیاری کرتا تھا، میری بد قسمتی دیکھئے رات کافی ہوگئی تھی سارے گھر والے سوئے ہوئے تھے بجلی چلی گئی اور مجھے نیند بھی نہی آ رہی تھی، ہمارے محلے میں چاچے نورے کی دوکان تھی، دوکان میں چند سبزیوں کے علاوہ گڑ، مرونڈا اور مونگ پھلی وافر مقدار میں موجود تھی۔ مجھے شدید بھوک لگی تھی میں نے سوچا مونگ پھلی کھا کر پیٹ پوجا کر لوں، گلی میں نکلا تو گُھپ اندھیرا تھا دیکھا تو چاچا نورا بھی جا چکا تھا مڑنے لگا تو اچانک ہی شیطانی خیال ذہن میں آیا کہ دکان کا کمزور سا دروازہ ہے ایک ٹھڈا مارا تو دروازہ تو کھل جائے گا اور میں تو صرف مونگ پھلی لوں گا، اپنے ساتھ صرف مونگ پھلی لینے کا وعدہ کر کے میں نے دروازے کو ٹھڈا مارا اور دروازے کا ایک پٹ کھل گیا۔

میں نے وعدے کے مطابق تھوڑی سی تقریبا آدھا کلو مونگ پھلی لی اور سحری تک مونگ پھلی کھاتا رہا اور امتحان کی تیاری کرتا رہا اور پھر صبح کی نماز باجماعت پڑھ کر سو گیا۔ میں نے چونکہ صرف مونگ پھلی لی تھی اس لیے میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ معاملہ اتنا بگڑ جائے گا۔ میں صبح نو بجے گھروالوں کا شور سن کے اٹھا کہ چاچے نورے کی دکان میں چوری کی واردات ہوئی ہے۔ چور ساری دکان اور غلے میں موجود 2 ہزار کے نوٹ بھی لے گئے ہیں۔ میرے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ چاچے نورے نے ساتھ والے گاؤں سے کھوجی کو بھی بلایا لیا ہے۔

ایک دفعہ تو میں بڑا پریشان ہوا پھر سوچا کھوجی فراڈ ہوتے ہیں اور میں کونسا ننگے پاؤں گیا تھا اور کھوجی کونسا سارے گاؤں کے جوتوں اور پیروں کے نشان جانتا ہے، امید ہے یہ واردات کس نشئی پر ہی پڑے گی، مجھ پر ویسے بھی کسی کو شک نہیں ہونا، سارا گاؤں جانتا ہے کہ میں بہت بھلامانس، محنتی اور شریف انسان ہوں۔ میں خود کو مطمن کر کے پھر سے بستر پر لیٹ گیا لیکن نیند نہ آئے بہت سے خیال آنے لگے، بہرحال خود کو تسلیاں دیتا رہا اور کافی حد تک خود کو مطمن بھی کرلیا۔

پورا محلہ کھوجی کے ساتھ مل کر کھُرا ڈھونڈ رہا تھا لیکن ابھی تک بات نہیں بن رہی تھی۔ میں ویسے ہی باہر نکلا کہ دیکھوں تو سہی باہر ہو کیا رہا ہے، میں ٹہلتے ٹہلتے جہاں کھوجی اور دیگر لوگ بیٹھے تھے وہاں چلاگیا پھر اٹھ کر دکان کے پاس چلاگیا واپس مڑنے لگا تو کھوجی نے آواز لگائی کہ چور ہمارے اردگرد موجود ہے میں ایک دم گبھر ا گیا اور وہیں رک گیا کہ کہیں میرے بھاگنے کی وجہ سے شک پکا نہ ہوجائے میں نے کھوجی سے بچنے کے لیے چھوٹے بھائی سے کہا کہ کھوجی چاچا کے لیے چائے لاؤ تاکہ مجھ پر شک نہ پڑے۔ چاچے کھوجی نے حکم دیا کہ سارے ہجوم کو گھیرے میں لے لیا جائے اس سے پہلے وہ مختلف قدموں پر دائرے لگا کر ان کو محفوظ کر چکا تھا۔

چاچے نورے کے بیٹوں اور محلے کے دیگر افراد نے لوگوں کو ایک جگہ کھڑے ہونے کے لیے کہا اور کھوجی صاحب کا حکم ہوا کہ ایک ایک شخص اس کے آگے رکھے سفید پاوڈر پر سے گزرتا جائے میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو دیگر لوگوں کو کھوجی صاحب کے حکم کی تعمیل کروارہے تھے کہ شاید بچ جاؤں، ہوا کچھ یوں کہ میرے ساتھ والے بھی مزاق مزاق میں کھوجی کے آگے رکھے پاوڈر پر سے گزرنے لگے اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا چارونہ چار مجھے بھی گزرنا پڑا۔ میں جونہی پاؤڈر پر سے گزرا کھوجی نے میرا بازو پکڑ لیا اس سے پہلے وہ میرے چال چلن کا مکمل جائزہ لے چکا تھا اس نے لوگوں کو بتایا کہ یہ ہے چور سارے لوگ حیران، پریشان اور بہت سے لوگ تو میری شرافت کی وجہ سے یقین ہی نہیں کر رہے تھے۔

کھوجی اور دیگر لوگوں کو تب یقین ہوا جب میری چارپائی کے سرہانے سے رات کو کھائی گئی مونگ پھلی کے چھلکے برآمد ہوئے میرے چاچے بابوں نے میری خوب دھلائی کی اور میں بہت شرمندہ ہوا۔ اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا اور چاچے نورے سے معافی بھی مانگی اب مجھے کامل یقین ہوگیا تھا کہ سارے علم کتابی نہیں ہوتے بلکہ علم بغیر مشاہدے، تجربے، اور استاد کے کچھ بھی نہیں۔

اس واقعے کے بعد میں دل برداشتہ ہوا کہ میں نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا، میٹرک امتحان بھی نہ دیا اور شہر جا کر محنت مزدوری کرنا شروع کر دی اب جب بھی گاؤں جاتا ہوں لوگ مجھے مزاق سے ادریس کھوجی کہتے ہیں۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid