Dukh Sukh Zindagi Ka Hissa Hain
دکھ سکھ زندگی کا حصہ ہیں
انسانی وجود جتنا قدیم ہے دکھ اور سکھ بھی اتنے ہی قدیم ہیں، انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک دکھ کے اس تپتے صحرا کو پار کرنے میں لگا رہتا ہے، ساری زندگی دکھوں کے آگے پل باندھتے گزار دیتا ہے، سکھ کی تلاش میں دکھ کے دریا پار کرتا ہے، عارضی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے مستقل غم اپنائے ہوئے ہے۔ سکون کی تلاش میں بے سکون ہوتا ہوا انسان مسلسل خسارے میں ہے، وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ مگر دکھوں کی یہ بیڑیاں آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔
انسان کبھی محلات میں سکون ڈھونڈتا ہے تو کبھی لاکھوں ڈالر کی کاریں بنا کر خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے۔ زندگی کو آسان بنانے کے لیے نت نئی ایجادات کرتا ہے، جدید ترین لیبارٹریاں، ٹیکنالوجی سے لیس ہسپتال بھی اس کے دکھوں کا مداوا نہیں کر پارہے، وہ سکون حاصل کرنے کے لیے اور سکھ چین کے لیے دولت کے پہاڑ بناتا جارہا ہے، پھر دولت کے پہاڑ بھی اس کے دکھوں کا مداوہ نہی کر پا رہے اسے موت سے نہیں، وہ دکھ چھپانے کے لیے شراب وکباب میں پناہ ڈھونڈتا ہے، رقص و سرور کی محفلیں سجاتا ہے، مذہب کا لبادہ اوڑھتا ہے، عشق و محبت کرتا ہے، مگر دکھوں کی یہ آبلاپائی ختم نہیں ہوتی، دکھ اور سکھ کی سرحدیں جڑی ہوئی ہیں کبھی وہ روتا روتا سکھ کے دیس میں جا نکلتا ہے اور کبھی ہنستا ہنستا دکھ کے دیس میں پہنچ جا تا ہے۔
وہ بلکتا ہے، روتا ہے، سسکتا ہے، مگر مداوا نہیں ہوتا، لگتا ایسا ہے کہ دکھ اور سکھ انسان کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہیں، کبھی دکھ اسے ہوا میں اچھالتا ہے تو سکھ اسے تھام لیتے ہیں، انسان دکھ اور سکھ کی رسی کو تھامے ہوئے ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر ہوتا رہتا ہے۔
انسان دکھ کی گٹھڑی اٹھائے مارے مارے پھر رہا ہے کہ ہے کوئی جو میرا بوجھ اٹھالے، وہ جہاں بیٹھتا ہے دکھوں کی اس گٹھڑی کو کھول لیتا ہے، سب کو اپنے دکھ سناتا ہے مگر وہ پھر بھی کم نہیں ہوتے، قرض کی طرح بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ شکوہ کناں ہے کہ میرے دکھ بانٹنے والا کوئی نہیں۔
غریب سمجھتا ہے کہ میرے دکھوں کی وجہ میری غربت ہے، پھر دکھوں کی بیڑیوں سے نجات کے لیے بڑے بڑے دکھوں کی آبیاری کرتا ہے، وہ جلا وطنی کی خاک چھانتا ہے، وہ دن رات محنت کرتا ہے کہ تاکہ غربت سے چھٹکارا حاصل کر سکے، وہ در در شہر شہر قسمت آزماتا ہے، آزمائش کے اس سفر میں کچھ لوگ بظاہر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، مگر جب کامیاب ہوتے ہیں تو نئے دکھوں سے سامنا ہو جاتا ہے، پھر وہ بچوں کی نافرمانی کے رونے روتا ہے، پھر امیری سے غریبی کے اندیشے نئے دکھوں کی آبیاری کرتے ہیں۔
آخری عمر میں خوف کے یہ سائے سو سو میٹر لمبے ہو جاتے ہیں، دکھوں سے لڑتے بھڑتے وہ آخری اور حتمی دکھ موت سے جا گلے ملتا ہے تب جا کر دکھوں کی ان بیڑیوں سے نجات ملتی ہے۔
ہاں مگر اس جہاں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے دل دکھ اور سکھ میں ساکن رہتے ہیں وہ دکھ سے لرزتے ہیں نہ سکھ ان کو غافل کرتے ہیں، دکھ ان کے بھی ہوتے ہیں مگر اُن کو اپنے خدا پہ کامل یقین ہوتا ہے کہ یہ عارضی ہیں مستقل صرف خدا کی ذات ہے باقی سب فانی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ دکھ اور سکھ زندگی کا حصہ ہیں وہ حادثے نہیں ہیں قوانین فطرت ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دکھ اور سکھ کا احساس ان دنیاوی رشتوں کو بدولت ہے مگرفطرت کی نظر میں سب انسان ہی ہیں۔
دکھوں کے لیئے چھوٹے، بڑے، امیر، غریب اور اچھے بُرے کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ دکھ اور سکھ سب پہ یکساں آتے ہیں۔ ہاں مگر مختلف شکلوں میں، بچوں کے پیدا ہونے کی خوشی، ماں باپ کے چلے جانے کا غم۔ یہ ہر کے سامنے اپنے زخم، اپنے دکھ نمایاں نہیں کرتے، وہ صبر کرتے ہیں اور شدید ترین نقصانات میں اور قریب ترین رشتوں کے کھو جانے پہ بھی شکوہ کناں نہیں ہوتے، گلے شکوے نہیں کرتے، وہ دکھوں کو خدا کی نافرمانی سے جوڑتے ہیں سکھوں کو اپنے شکر کا اجر سمجھتے ہیں، وہ حق بات کہتے ہیں، وہ حق کے راستے میں تذلیل سے نہیں ڈرتے وہ سمجھتے ہیں کہ تذلیل جتنی سر عام ہوگی انعام بھی اتنا بڑا ہوگا اور سرے بازار ملے گا۔
نبیﷺ نے طائف میں پڑنے والے پتھروں کا گلہ نہیں کیا بلکہ اس کے بدلے میں ان کے لیئے دعائیں کی تھیں، خدا سے شکوہ نہیں کیا تھا بلکہ صبر سے کام لیا اور پھر خدا نے بھی اپنے نبیﷺ کو تنہا نہیں چھوڑا تھا اور یہیں سے کامیابیوں اور نعمتوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا تھا۔
حقیقت یہی ہے کہ دکھ سکھ زندگی کا حصہ ہیں ان کے ساتھ ہی زندگی گزرنی ہے، کوئی دکھ آخری نہیں ہوتا، اور نہ کوئی سکھ آخری ہوتا ہے یہ زندگی کا حصہ ہیں رات دن، زمین آسمان، مشرق مغرب کی طرح آغاز سے انجام تک رہیں گے، خدا کی رسی ہی دکھ اور سکھ میں آخری اور مستقل سہارا ہے زندگی اسی تغیر اور تبدل کا نام ہے، یہ جتنا جلدی سمجھ آجائے اتنا ہی اس دنیا میں اپنا سفر جاری رکھنے میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ زندگی تو چلتی جا تی ہے رکتی نہیں ہے۔