Zindagi Utar Charao Ka Naam Hai
زندگی اتار چڑھاؤ کا نام ہے
کہتے ہیں کہ ایک آدمی ہر وقت پریشان رہتا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں آنے والی پریشانیوں سے بہت تنگ تھا۔ ایک پریشانی سے جان چھوٹتی تھی تو دوسری آ جاتی تھی۔ زندگی کے اِس اُتار چڑھاؤ کی وجہ سے وہ اپنا چین سکون سب کھو چکا تھا اور اب تو وہ بیمار بھی رہنے لگا تھا۔ اُسے کسی نے مشورہ دیا کہ فلاں جگہ ایک بزرگ رہتے ہیں، وہ بہت اچھے ہیں۔ تمہیں اُن سے ملکر بات کرنی چاہیے، ہو سکتا ہے شاید تمہاری پریشانیوں کا کوئی حل نکل آئے۔
وہ فوراً اُس بزرگ سے ملنے کے لیے نکل گیا۔ جب اُس کی بزرگ سے ملاقات ہوئی تو شام ہو چکی تھی اور بزرگ نے آنے کی وجہ پوچھی تو اُس آدمی نے ساری روداد کہہ ڈالی۔
بزرگ نے پوری توجہ سے اُس پریشان آدمی کی بات سنی اور جب بات مکمل ہوگئی تو بزرگ فرمانے لگے کہ پُتر ابھی رات ہونے والی ہے تو مجھے سونا ہے لیکن ہاں میں تمہارے مسئلے کا حل تمہیں کل لازمی بتا دوں گا۔
اور سنو میرے پاس سو اونٹ ہیں تو تمہیں آج رات اُن کا خیال رکھنا ہے، اور جب سب اونٹ بیٹھ جائیں گے تو تم بھی سو جانا۔ اور بزرگ یہ بات کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔
صبح ہوئی تو بزرگ نے اُس شخص سے پوچھا کہ سناؤ؟
رات کیسی گزری۔
وہ آدمی اکتاہٹ ذدہ لہجے میں بتانے لگا کہ میں ساری رات نہیں سو سکا۔ کیونکہ صبح ہونے تک سارے اونٹ بیٹھے ہی نہیں۔ ایک کو بٹھانے کی کوشش کرتا تھا تو دوسرا اُٹھ جاتا تھا۔ وہ بیٹھتا تھا تو کوئی اور اٹھ جاتا تھا۔ اور یوں ساری رات گزر گئی مگر سارے اونٹ نہیں بیٹھ سکے۔
بزرگ نے اُس شخص کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کہا کہ بیٹا یہ زندگی بھی تمہاری گزاری ہوئی رات کی طرح ہے اور تمہاری پریشانیاں اِن اونٹوں کی طرح ہیں جو کبھی ختم نہیں ہو سکتیں۔ ایک کو سلجھاؤ گے تو دوسری آ جائے گی۔ ایک کٹا باندھو گے تو نیا کھل جائے گا۔ زندگی اتار چڑھاؤ کا نام ہے بیٹا۔ کبھی خوشی تو کبھی غم کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اگر تم اپنی ان پریشانیوں کی وجہ سے سیریس رہنے لگو گے تو ساری زندگی سکون سے سو نہیں پاؤ گے جس کی وجہ سے بیمار رہنے لگو گے اور ہو سکتا ہے یہی خیالات تمہیں موت کے منہ میں بھی لے جائیں۔
اِسی لیے پریشانیوں کو لیکر اتنا گھبرایا نہ کرو۔ یہی زندگی ہے اور اِسے ایسے ہی گزارنا ہے۔ ایک پریشانی جائے گی تو دوسری آ جائے گی۔ مگر ہم نے ان کو حل کرتے ہوئے ہی اپنی زندگی گزارنی ہے اور خوش رہنا ہے۔
وہ شخص، اُس بزرگ کی بات کی پوری گہرائی سمجھ چکا تھا اور اُس نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور مطمئن دل کے ساتھ واپس لوٹ گیا۔