Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Yaar Di Kanjri

Yaar Di Kanjri

یار دی کنجری

کوئی زمانہ تھا جب رئیس زادے اور امراء عیاشیوں کے لیے کوٹھوں کا رُخ کیا کرتے تھے۔ کوٹھوں پہ خوب محفلیں جما کرتیں اور رقاصائیں اپنی اداؤں سے آنے والوں کے دل کو خوب پسیجتیں اور پیسہ بٹورتیں۔

اُس دور میں عیاش امیر اور بہترین رقاصاؤں کی بڑی دھوم ہوا کرتی تھی۔ اچھے تاجر، یا تماش بین کے لیے سب سے خوبصورت اور بہترین رقاصہ کو پیش کیا جاتا تھا تاکہ آنے والا یہیں کا ہو کر رہ جائے۔

وقت انگڑائی لیتا گیا اور جدیدیت نے کوٹھوں کو ویران کرنا شروع کر دیا۔ پھر ٹیکنالوجی میں ترقی آتی گئی اور انٹرنیٹ کے بعد آنے والی ایپس نے ہر طرف دھوم مچانا شروع کر دی۔ یہ چنگاری، بھڑکیلی آگ میں تبدیل ہوتی گئی اور سب کچھ جلانے لگی۔

وقت اور حالات بدلے تو کوٹھوں کی جگہ، گاڑیاں، ہوٹلز اور فارم ہاؤسز نے لے لی۔ اِس تبدیلی میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی وہ شریف لڑکیاں تھیں۔ وہ لڑکیاں کہ جنہیں اِس جدید ٹیکنالوجی اور احساسِ کمتری نے وہ ڈنک مار دیے کہ جن کا تریاق کہیں سے بھی نہیں مل سکتا۔

کوٹھے ختم ہو گئے تو امیروں کا جی للچانے کے لیے بڑے بڑے ہوٹلز کھول دیے گئے۔ بڑے بڑے گھروں کے ڈرائینگ رومز اِس کام کے لیے استعمال ہونے لگے۔ کنجری تو وہی رہی بس کوٹھی کی کنجری، یار کی کنجری میں بدل گئی۔

وہی کچھ ہے، بس عیاش لوگوں کا طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔ پیسہ کھلاؤ اور جی بھر کر عیش کرو۔ گاڑی کی سواری، ہوٹلز کے کمرے اور مہنگے تحائف، کوٹھے کی جدید اشکال ہیں۔ جن کا استعمال اب عام ہے۔

پہلے کنجری کو کنجری کہہ دینا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا مگر پھر یہ لفظ برا لگنے لگا اور ایجادات کی بھاگ دوڑ میں کنجری لفظ کہیں بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ کام وہی ہو رہا ہے مگر اب کنجری کہہ کر نہیں ہوتا۔ دوست کہہ کر ہوتا ہے، کولیگز بنا کر ہوتا ہے۔ محبت کا جھانسہ دیکر ہوتا ہے۔

کوٹھے تو ختم ہو گئے مگر مرد ختم نہ ہوئے، جسم کی بھوک نہ مری تو ضرورت نے نئے راستے ایجاد کر لیے۔ اب ایک کلک پہ پیزا یا برگر کے ساتھ ساتھ کنجری بھی گھر پہ پہنچ جاتی ہے۔ اور کیا چاہیے آپ کو؟

آپ بچے نہیں ہیں۔ آپ روزانہ کی بنیاد پر یہ سمجھتے، پرکھتے اور دیکھتے ہیں کہ آپ کے آس پاس کہاں کہاں اور کتنے یار اپنی کنجریوں کے ساتھ تنہائی کے لمحات گزارتے ہیں۔ ایک چیز اور کہ جس پر افسوس آتا ہے اور وہ یہ کہ کوٹھوں کے دور میں بھی مرد ہر طرح کی بدنامی سے آزاد تھے اور مرد آج بھی آزاد ہیں۔

کردار کے معاملے میں ہر دور عورت ذات پر ہی انگلی اٹھاتا آیا ہے۔ زمانے کی اِس منافقت پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔

خیر ٹیکنالوجی کی اِس تیز رفتار ترقی میں کوٹھے کی کنجری سے یار کی کنجری بننے تک کا سفر مبارک ہو۔

Check Also

Janoobi Korea , Muashi Taraqqi Aur Corruption Ka Taal Mil

By Khalid Mehmood Rasool