Waldain Ki Muhabbat Mein Farq
والدین کی محبت میں فرق
ہم چھوٹے تھے، اور اب بڑے ہو گئے اور ہمیشہ ہم نے یہی سُنا کہ ماں باپ کو اولاد بہت پیاری ہوتی ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ اس دنیا میں اگر کوئی محبت کا سفیر ہے یا محبت کا تعارف تو وہ والدین ہی ہوتے ہیں۔
میں بھی مانتا ہوں کہ والدین اپنی اولاد سے بہت محبت کرتے ہیں مگر یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ والدین کو اپنے سارے بچے ایک جتنے پیارے نہیں ہوتے۔ وہ پیار تو کرتے ہیں مگر فرق کر جاتے ہیں۔ کسی ایک کے ساتھ، وہ زیادتی کرتے رہتے ہیں۔ اس کی خوشیوں کو کھا جاتے ہیں۔ اپنی ہی اولاد میں سے کسی ایک کو بہت نواز دیتے ہیں، بہت پیار کرتے ہیں اور ایک کو قربانیوں کی بلی چڑھا دیتے ہیں۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے کئی کیسز دیکھے ہیں کہ ایک بیٹا ہر لحاظ سے عیاشی کرتا ہے اور دوسرا دن رات پسینے بہاتا ہے اور پھر بھی والدین عیاشی کرنے والے کو زیادہ محبت اور مان دیتے ہیں جبکہ محنتی بچے کو سمجھانے اور ذمہ داریوں کی چکی میں پسنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کی خواہشات کو تکمیل کی منزل نہیں ملتی۔
والدین ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ جب دونوں بچے آپ کے اپنے ہیں تو دونوں کے ساتھ سلوک ایک جیسا کیوں نہیں؟ بطور والدین آپ پر یہ زیادہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ ساری اولادوں میں یکساں طور پر انصاف فراہم کریں۔ سب میں برابری سطح پر چیزوں کی تقسیم کی جائے مگر ہائے قسمت کہ سب میں برابری سطح پر نہ تو پیار تقسیم ہوتا ہے، نہ پراپرٹی اور نہ توجہ۔ والدین کی اس لاپرواہی کی وجہ سے کئی بچے احساسِ کمتری کی چھاؤں تلے پلتے اور بڑے ہوتے ہیں۔
ان کے دلوں میں جانے کتنی ہی خواہشات دم توڑ جاتی ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے ماحول کو پرکھتے ہیں اور اندر ہی اندر سے زخمی ہوتے رہتے ہیں اور وجہ کوئی اور نہیں بلکہ اُن کے اپنے اور سگے والدین ہی بنتے ہیں۔ جو خود سب بچوں کے ذہنوں میں انتشار اور ظلم کے پودے لگاتے ہیں۔ جو ان کے سامنے ناانصافی کی مثالیں پیدا کرتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔
انہیں احساس تک نہیں ہوتا بلکہ بات کرنے پر مکر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی اپنی اولاد میں فرق نہیں کیا۔ صاف جھوٹ بول دیتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ خدارا اگر آپ والدین بنتے ہیں تو اپنے معصوم بچوں میں فرق نہ کریں، انہیں برابر پیار دیں۔ انہیں احساس دلائیں کہ سارے بچے آپ کو برابر پیارے ہیں۔ ان کو ذہنی طور پر پختہ کریں اور احساسِ کمتری سے ان کی شخصیت کو زخمی نہ کریں۔