Takleef To Sehni Parti Hai
تکلیف تو سہنی پڑتی ہے
کامیابی یا اپنے مقرر کردہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور صبر کے تپتے صحرا سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ جان جوکھوں میں ڈالنا ہی پڑتی ہے پھر جا کر من چاہا نتیجہ ملتا ہے۔ بنا تکلیف کے جیت نہیں ملتی۔ کامیابی کوئی پھولوں کی بنی سیج نہیں ہوتی یہ تو وہ راستہ ہے کہ جس کے قدم قدم پر کانٹے بچھے ہوتے ہیں۔
جب آپ کا بچہ بیمار ہوتا ہے تو آپ اُسے ڈاکٹر کے پاس لیجاتے ہیں۔ آپ کو اپنے بچے سے بے پناہ محبت ہے اور شاید اِسی لیے آپ سے بچے کی تکلیف دیکھی نہیں جا رہی ہوتی۔ آپ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ کسی طرح بس بچہ ٹھیک ہو جائے، اِسے سکون مل جائے۔ ڈاکٹر بچے کو چیک کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اِسے انجکشن لگے گا۔ آپ، جو بچے کو سوئی لگنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے لیکن ڈاکٹر کو انجکشن لگانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔
والدین ڈاکٹر کو انجیکشن لگانے کی اجازت کیوں دیتے ہیں؟ جبکہ اُنہیں پتہ ہوتا ہے کہ بچے کو انجکشن کی تکلیف ہوگی۔ اُس کے باوجود وہ اجازت دیتے ہیں تاکہ اُن کا بچہ جلد سے جلد ٹھیک ہو سکے۔ بچے کی صحتیابی کے لیے، اُس کے بھلے کے لیے وہ انجکشن کی تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں پتہ ہوتا ہے کہ سوئی کا درد چند لمحوں کے لیے ہوگا لیکن اگر سوئی نہ لگی تو بچہ ٹھیک نہیں ہوگا اور یوں اُسے بیماری کا درد زیادہ دیر کے لیے برداشت کرنا پڑے گا۔
اچھے دنوں کے لیے برے دنوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ماں بننے کے لیے نو ماہ کی تکلیف سہنا پڑتی ہے پھر جا کر پاؤں تلے جنت آتی ہے۔ اِسی لیے تو کہا گیا ہے کہ
ان مع العسری یسریٰ۔
یعنی مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
تکلیف اِس بات کا مطلب ہوتی ہے کہ آسانی آنے والی ہے۔ درد، اصل میں آنے والے سکھ کی اطلاع دینے آتے ہیں۔ زندگی گلزار نہیں ہوتی۔ پہلے مصیبتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے پھر جا کے جینے کا مزہ آتا ہے۔ تو کبھی لگے کہ زندگی بہت تکلیف دینے لگی ہے یا درد برداشت سے باہر ہوتے جا رہے ہیں تو سمجھ جائیے گا کہ اللہ کچھ ایسا دینے والا ہے جو راحت سے بھرپور ہوگا۔ جو سکون کے چھپڑ پھاڑنے والا ہے۔ یاد رکھیں کہ خوشی کا اصل مزہ تکلیف سہنے کے بعد ہی آتا ہے تو اگر سکون درکار ہے تو تکلیف کو خوش آمدید کہنا سیکھیں۔