Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Sufna

Sufna

سُفنا

سنو، کیا تم نےکبھی بائیو پڑھی ہے؟ اس میں دو موضوع ایسے ہیں جو وولنٹری اور ان وولنٹری ایکشن کے نام سے پڑھائے جاتے ہیں۔ یعنی ایسے دو ایکشنز جن میں ہماری مرضی ہوتی ہے یا جن میں ہماری مرضی نہیں ہوتی۔

یعنی ہمارا جسم کچھ ایسے کام بھی کرتا ہے کہ جو غیر ارادی طور پر ہوتے ہیں مثال کے طور پر، عمل انہضام، دل کی دھڑکن وغیرہ اور کچھ کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو ہونا تو ہوتا ہی ہے لیکن اگر ہم چاہیں تو کچھ وقت کے لیے سہی مگر اُنہیں روک سکتے ہیں جیسا کہ سانس لینا وغیرہ۔

ہم اگر چاہیں بھی تو دل کی دھڑکن کو نہیں روک سکتے، ہم نے جو کچھ کھایا ہوتا ہے اُسے معدے کو کہہ کر ہضم کرنا بند نہیں کروا سکتے۔ یعنی یہ وہ کام ہیں جو خود ہی ہونے ہوتے ہیں جن پر ہمارا کوئی بس نہیں چلتا۔

جبکہ دوسری قسم کے کام بھی رکنے والے نہیں ہیں مگر اُن پر کچھ دیر کے لیے ہی سہی ہمارا اختیار ضرور ہوتا ہے۔ ہم اُنہیں اپنی مرضی سے جب چاہیں کچھ وقت کے لیے قابو کر سکتے ہیں۔

بالکل اِسی طرح پیار کرنا وہ پہلا ایکشن ہوتا ہے کہ جو غیر ارادی ہوتا ہے، جسے کوئی روک نہیں سکتا۔ جو کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ بس یہ خود ہی ہو جاتا ہے۔

اب آتے ہیں دوسرے ایکشن کی طرف کہ جسے کچھ وقت کے لیے ہی سہی ہم اپنے قابو میں کر سکتے ہیں مگر یہاں جب محبوب کو بھولنے کی کوشش کی جاتی ہے یا ایسا کچھ سوچا بھی جاتا ہے تو سانس بند ہونے لگتی ہے۔ یعنی یہ دوسرا ایکشن فوراً پہلے ایکشن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ محبت میں عاشق چاہے بھی تو محبوب کو پیار کرنا بند نہیں کر سکتا۔ محبت میں بائیو کا دوسرا ایکشن اپلائی نہیں ہوتا۔ کیونکہ محبت ہوتی ہی غیر ارادی ہے۔ اِسے چاہ کر بھی ختم یا محبت کرنا بند نہیں کیا جا سکتا۔ محبت کے معاملے میں بائیو کا دوسرا ایکشن پوری طرح سے فیل ہوتا ہے۔

***

میں میٹرک تک گاؤں میں رہا۔ اس کے بعد اچھی پڑھائی کی غرض سے لاہور آ گیا۔ مگر گاؤں اب بھی میری نَسوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ میں نے وہاں تقریباً ہر طرح کے کام کیے۔ کپاس چُنی، گندم اور دھان کی فصل کاٹی اور بوئی بھی۔ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی کی پہلی کمائی کپاس چُنائی ہی تھی۔ میں نے تب اپنی پہلی کمائی سے جوتا خریدا تھا۔ شاید جوتے سے بھی زیادہ کما سکتا تھا مگر میں نے اپنی کپاس کا کچھ حصہ کسی نازنین کو دے دیا تھا۔

جب دھان کی فصل آتی اور پنیری لگانا ہوتی تھی تب بھی میں پنیری کی گُٹھلی کو صاف شفاف کرکے، اُس کے ایک ایک تِیلے کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے بعد پانی میں دھو کر ایک خاص انسان کو دیتا تھا۔ اپنی مرچوں والے پراٹھے، آم اور گھر سے لیجایا گیا خاص اچار بھی اُسی انسان کے لیے ہمیشہ حاضر رہتا تھا۔

***

آج ہم بات کر رہے ہیں فلم "سُفنا" کی اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی لمبی تمہید کی طرف نکل گیا۔ اس کی وجہ وہی سب کچھ ہے جو مجھ پر بِیتا ہے۔ جسے میں نے محسوس کیا ہے۔ اِس فلم نے سیدھا میرے ماضی پر حملہ کیا ہے۔ مجھے ہر وہ لمحہ، وہ پل یاد کروایا ہے، جِسے وقت کی مٹی کسی حد تک اپنے اندر چھپانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔

ہم گاؤں کے لڑکوں کو ٹیوب ویل پر کپڑے دھونے آئی کسی الہڑ مٹیار سے، کپاس چُنتے وقت اپنی شرارت کرتی لَٹوں کو سنبھالتی کسی نازنین سے، یا دھان کی پنیری لگاتی، سورج کی روشنی سے آنکھیں بچاتی دوشیزہ سے محبت ہوتی ہے۔

اِس فلم میں بھی وہی ہوا۔ کپاس چُننے کے کام میں مگن دو انسانوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ محبت نے اُنہیں چُن لیا ہے۔ پھر کیا تھا۔ وہی ہوا جو ازل سے ہوتا آیا ہے۔ محبت نے دو دلوں میں بےچینی، بےقراری بھر دی۔ سونے والی آنکھوں میں دیدار کی طلب جبکہ خون کی سپلائی دینے والے دل میں دھڑکن کی جگہ، محبوب کی صدا بھر دی۔

بس پھر کیا تھا، محبت ہوئی تو مرد، اپنی وجاہت اور رعب و دبدبہ بھول کر محبوبہ کے گھر کے کام میں لگ گیا۔ برتن، جھاڑو، پانی بھرنا، کام کی تمیز ہی بھول گیا اور اگر خیال رہا بھی تو بس محبوب کا۔ عاشق کے لیے یہی بات ہی راحت طلب تھی کہ چلو اس کے کاموں سے محبوبہ کو کچھ تو سکوں ملے گا۔ اُس کی مشقت میں کچھ تو کمی آئے گی۔ سچ پوچھیں تو محبت میں یہی دن شاندار ہوتے ہیں۔ محبوب کی جھلک بھی مل جاتی ہے اور سامنے بیٹھ کر چار باتیں بھی ہو جاتی ہیں۔

محبت ہو اور برے دن نہ آئیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کہانی میں بھی وہی ہوا۔ ہنستے کھیلتے جدائی آ ٹپکی، آنکھیں دیدار سے محروم ہوئیں تو دل دھڑکنے سے باز رہنے لگا۔ محبت نے وصل کے بعد ہجر کا ایسا صور پھونکا کہ دونوں کے جھولی میں تڑپ کے انگارے آ گِرے۔ اذیت کے پھن پھیلائے ناگ دو جیتے جاگتے وجود کو ڈسنے لگے۔

مگر محبت میں ایک خاص بات ضرور ہے یہ سچےجذبوں اور سخت جان لوگوں سے زیادہ نہیں اُلجھتی۔ ہاں کڑے امتحان ضرور لیتی ہے اور جو پاس ہو جاتا ہے، اُسے اپنا آپ سونپ دیتی ہے۔

اِس فلم میں محبت کے سارے اَجزاء شامل ہیں۔ آپ جیسے جیسے دیکھتے جاتے ہیں، کہانی کی روانی کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ جیسے آپ بھی اس فلم کا ایک کردار ہیں۔ اس کے کئی سینز آپ کے دل پر دستک دیتے ہیں تو کچھ باتیں آنکھوں کو نم کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ فلم محبت والوں کی فلم ہے۔ میچور، عملی، سنجیدہ یا سمجھدار لوگ اِس فلم سے دور رہیں۔ کیونکہ محبت ہوتی ہی ایک بچگانہ عمل ہے۔ اس میں سمجھدار مات کھا جاتے ہیں اور عملی لوگ اعداد و شمار اور نفع نقصان کی گِنتی کرتے کرتے بھاگنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam