Shoaib Akhtar Ka Attitude
شعیب اختر کا ایٹیٹیوڈ
زندگی سب ہی گزارتے ہیں۔ اپنی اپنی فیلڈ میں اپنا بہترین کام پیش کرتے ہیں۔ لیکن ایک جیسی پرفارمنس کے باوجود کوئی یاد رہ جاتا ہے اور کوئی بھلا دیا جاتا ہے۔ ایک جیسا کام، ایک جیسی محنت، ایک جتنی کوشش، مگر نام کسی ایک کا ہی ہوتا ہے جبکہ دوسرا گمنام ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
ابھی تک دنیائے کرکٹ میں کئی مشہور اور تیز ترین باؤلر آ چکے ہیں۔ جن کی رفتار دیکھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ جو جب باؤلنگ کرانے آتے ہیں تو سامنے والے کی جان نکل جاتی ہے۔ تیز باؤلنگ کو کھیلنا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ اسی تیز رفتاری کی وجہ سے کتنی ہی بار بیٹس مین شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ کبھی کسی کے سر سے خون بہا تو کوئی بازو تڑوا کے بیٹھ گیا۔ کسی کی گردن پر گیند لگی تو کسی کی پسلی دوہری ہوگئی۔
اسی تیز رفتاری سے کئی نامور بلے بازوں کی ٹانگیں کانپتی دیکھی گئی ہیں۔ 150 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کا سامنا کرنا اپنے آپ میں ایک پہاڑ کو سر کرنے جتنا مشکل ہوتا ہے۔ اتنی رفتار سے گیند کو دیکھنا اور پھر بیٹ سے کھیلنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ جب گیند آتی ہے تو ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں کھیلنا ہوتا ہے۔ اسی لیے کھیلنے سے زیادہ خود کو اس گیند سے بھی بچانا ہوتا ہے تاکہ زخمی ہونے سے بھی بچا جا سکے۔
اب اگر دیکھا جائے تو درجنوں گیند باز ایسے ہیں جو 150 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز گیند کرواتے ہیں۔ مگر اس تیز رفتاری کی دنیا میں بس ایک ہی شخص کا نام لیا جاتا ہے اور وہ نام ہے "شعیب اختر"۔
تو پھر شعیب اختر میں ایسا کیا تھا جو اسے باقی سب سے منفرد بناتا تھا۔ اگر اس سوال کا جواب ڈھونڈا جائے تو جواب ہوگا کہ شعیب اختر کو شعیب اختر اس کے "ایٹیٹیوڈ" نے بنایا ہے۔ اس کا ایٹیٹیوڈ ہی اسے باقی سب باؤلروں سے ممتاز کرتا تھا۔ اس کے انداز میں ہی انفرادیت چھپی ہوتی تھی۔ لمبے بال، آستینیں کھلی، سامنے والے بٹن بھی کھلے، اور ہر آنے والے بلے باز سے پنگے بازی۔ اُسے اپنی تیز رفتاری سے ڈرانا، تیز ترین باؤنسر مارنے اور کھلی بدمعاشی کرنا ہی اُسے زیادہ خطرناک بناتا تھا۔
اس نے لوگوں کے دلوں میں یہ خوف بٹھا دیا تھا کہ اس سے پنگا لو گئے تو وہ پسلی توڑ دے گا۔ اسے آنکھیں دکھاؤ گئے تو وہ سر پہ گیند دے مارے گا۔ ٹانگیں توڑ دے گا اور ایسا وہ کرکے بھی دکھاتا تھا۔ اس نے کوئی بلے باز نہیں چھوڑا جس سے پنگے نہ لیے ہوں۔ جسے ڈرایا نہ ہو اور یہی وجہ تھی کہ جب وہ لمبے بالوں کے ساتھ پروں کی طرح ہاتھ پھیلائے جب بھاگ کر آتا تو سامنے والوں کی دھڑکنیں سینہ پھاڑ رہی ہوتی تھیں۔
سب تیز ترین گیند بازوں میں سب سے بڑا نام شعیب اختر کا اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے تو بنا سو بنا مگر اس میں سب سے بڑا ہاتھ اس کے ایٹیٹیوڈ کا تھا۔ اس کا ایٹیٹیوڈ ہی اسے خطرناک بناتا تھا اور وہ باقی سب باؤلرز پر فوقیت لے جاتا تھا۔ اگر ایک جتنی محنت اور شاندار پرفارمنس کے باوجود آپ اپنا نام نہیں بنا پا رہے ہیں تو سوچیں کہ کمی کی وجہ کہیں آپ کا ایٹیٹیوڈ تو نہیں؟ بالکل اسی طرح شیر کوجنگل کا بادشاہ بھی اس کا ایٹیٹیوڈ ہی بناتا ہے وگرنہ تو وہ جنگل کا نہ سب سے لمبا جانور ہوتا ہے، نہ موٹا، نہ بڑا اور نہ ہی چالاک مگر وہ پھر بھی جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے کیونکہ اس کا ایٹیٹیوڈ ہی بادشاہوں والا ہوتا ہے۔