Shayar
شاعر
دسمبر کے ٹھٹھرتے دن تھے۔ شام پڑی تو اندھیرے اور دھند نے راستے بند کر دیے۔ محبت میں دل مچلتا تھا۔ وَصل تھا تو سردی بھی اچھی لگتی تھی۔
محبت وہ چراغ ہے کہ جس کو رگڑو تو اندر سے ہجر کا جن نکل آتا ہے۔ میری محبت کو بھی ہجر نے آ لیا۔ خوشی کے دن تھے۔ ماں جی سے کہہ کر گوبھی کے پراٹھے بنوائے تھے۔ سامنے پڑے تھے جب جدائی کا صور پھونکا گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ پراٹھے سامنے کے سامنے پڑے رہ گئے۔ کان بند ہو گئے تھے اور آنکھیں اندھی۔ زبان نے چپ کا تالا لگا لیا اور پیٹ نے بھوک پیدا کرنا بند کر دی۔
دل نے دھڑکنے اور قدموں نے چلنے میں رفتار پکڑ لی تھی۔ فوراً باہر کی جانب بھاگا۔ مجھے نہیں یاد کہ کتنا بھاگا تھا۔ کس طرف گیا تھا۔ کہاں گیا تھا؟ کچھ یاد نہیں۔ ہجر کچھ یاد بھی کہاں رہنے دیتا ہے۔ دل و دماغ میں بس ایک محبوب کا نام نقش ہوتا ہے باقی سب بےمعنی ہو جاتا ہے۔ جسے یاد رکھنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اذیتِ ہجر میں شدت آتی تو صفحے کالے کرنا شروع کر دیتا۔ کئی ڈائریاں بھریں، کئی تحاریریں لکھیں۔ درد لفظوں میں پرونے کی ناکام کوشش کرتا مگر تکلیف میں کمی آنے کی بجائے شدت اختیار کر جاتی۔ میرا ناول "محبت مار ڈالے گی" اسی درد کی بدولت وجود میں آیا۔
***
یہ کوئی فلم نہیں ہے، محبت و فراق اور جذبات کی وہ بارش ہے جو ہم سب پر برستی ہے۔ محبت کیسے دو معصوم دلوں پر حملہ کرکے اُنہیں زخمی کرتی ہے کہ سنبھلنے کا موقع تک نہیں دیتی۔ محبت اس دنیا کا سب سے گھناؤنا چہرہ ہے جو اچھے دن اور سچے جذبات کا سودا ہجر جیسی موذی بیماری سے کر دیتا ہے۔ جو جینے کا حق چھین لیتی ہے۔
یہ ہجر اس قدر سفاک ہوتا ہے کہ تڑپنے والے سے اُس کی آخری خواہش بھی نہیں پوچھتا۔ یہ رحم نہیں کرتا۔ جانے کتنے ہی ہنستے چہرے زرد کر دیے اس نے۔ کتنی ہی ماؤں کے لعل منوں مٹی میں دبا دیے مگر پھر بھی اِسے سکون نہیں ملتا۔ یہ ازلوں سے قبریں کھودتا آیا ہے۔ جوان اور معصوم دلوں کو محبت کا پھول دکھا کر، ببول کے کانٹے پکڑا دیتا ہے۔
محبت ہو اور ہجر نہ آئے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس فلم میں بھی وہی ہوا۔ سرتاج کو "سیرو" سے محبت ہوئی تو یہ دونوں باہر ہنستے تھے اور ہجر دروازے کے اوٹ سے ان دونوں کو دیکھ کر ہنستا تھا۔ محبت نے اظہار کیا تو جدائیوں کے موسم آ گئے۔ پھر رسم و رواج بیچ میں آئے تو کبھی عزت بیچ میں آ گئی۔ بدقسمتی کہ معاشرتی دباؤ تو نظر آ گیا مگر محبت کرنے والے نظر نہ آئے۔
محبت ہوئی تو سماج نے دوریاں سُنا دیں۔ قسمت نے نرالے کھیل کھیلنے شروع کر دیے۔ محبت گداز لمس سے بدن کی اذیت میں کب بدلی، پتہ ہی نہیں چلا۔ محبوب کی ایک جھلک کے لیے دل تڑپنے لگا۔ آنکھیں معشوق ڈھونڈتی مگر نظر درد آتے۔ ہاتھ لمس پکڑتا تو لکیریں مذاق اُڑاتیں۔ وصل ختم ہوا تو ہجر کی ایسی جھڑی لگی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
محبوب اور معشوق جب اذیت کی آخری انتہاؤں کو پہنچے تو سُن لی گئی۔ رحم نے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا۔ ایک بار پھر ملاقات کا بندوبست کر دیا گیا۔ ایک ایسی ملاقات کہ جس کے بعد جدائی کو موت آ جانی تھی۔ معشوق سامنے تھی اور عاشق گھٹنوں کے بل بیٹھ کر محبوب سے ڈھیروں باتیں کرنے لگا۔ وقت رُک سا گیا۔ محبت نے کچھ دیر لے لیے ہی سہی ہجر کو وصل کے لیے منا لیا تھا۔
اب دونوں اکٹھے بیٹھے تھے۔ باتیں ہو رہی تھیں۔ محبت پھر سے خواب بننے لگی تھی۔ معشوق اپنے عاشق سے خوش ہو رہی تھی۔ اُسے داد رہی تھی اور پھر ہوا کا وہ جھونکا آیا جو ازلوں سے آتا آیا ہے اور معشوق نے اپنے عاشق کے کندھے پر ایسے سر رکھ دیا کہ محبت اَمر ہوگئی اور ہجر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہار گیا۔