Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Sharika

Sharika

شریکا

میں نے پہلی مرتبہ یہ "شریکا" لفظ اپنے ابو سے سنا تھا۔ جب میں نے چاچی کی کسی زیادتی کی شکایت کی تھی اُن سے تو ابو نے کہا تھا کہ پتر کوئی بات نہیں، معاف کر دے اپنی چاچی کو۔ یہ شریکے میں رہنا بڑا اوکھا ہوتا ہے پتر۔ میں حیران ہوتے ہوئے بولا تھا کہ ابو میں تو چاچی کی بات کر رہا ہوں اور آپ کسی شریکے کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ یہ شریکا کیا ہوتا ہے ابو؟ قریبی رشتے داروں کو شریکا کہتے ہیں پتر جن سے ہماری کبھی چھوٹ نہیں ہو سکتی۔

جیسے تیری مامی ہے اور دیکھ تجھے کتنا پیار بھی کرتی ہے، تیری خالہ بھی شریکا ہے پتر جو جب بھی تجھ سے ملتی ہے تو تیرا ماتھا چومتی ہے تجھے کلیجے سے لگا کے رکھتی ہے۔ ایسے سبھی قریبی رشتے شریکا کہلاتے ہیں پتر۔ مگر ابو کی یہ بات مجھے تب سمجھ نہیں آئی تھی کہ شریکے میں رہنا اوکھا کیوں ہوتا ہے؟ لو اپنے قریبی رشتے داروں میں بھی رہنا اوکھا ہو سکتا ہے بھلا؟ مجھے تو سبھی اتنا پیار بھی کرتے ہیں۔ شریکا تو اتنا اچھا ہوتا ہے۔

مگر پھر ابو کے چلے جانے کے بعد پتا چلا کہ ابو مجھ سے جھوٹ بولا کرتے تھے کہ شریکا وہ ہوتا ہے جن سے چھوٹ نہیں ہو سکتی۔ اب دیکھو نہ ابو کے جانے کے بعد ہم کئی کئی دنوں تک بھوکے رہتے ہیں مگر کوئی خالہ، ماما یا چاچی آ کے ہمارا حال تک نہیں پوچھتے۔ ایک دفعہ میری ضد پہ امی مجھے چاچو کے گھر لے بھی گئیں تھیں مگر انہوں نے ہمیں بہت بری طرح سے دھتکار دیا تھا کہ چلے جاؤ یہاں سے ہمارے پاس تم لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے بھوک سے نڈھال کیسے واپس گھر پہنچے تھے ہم۔ سارے رَستے میری ماں کے آنسو نہیں تھے رُکے۔ بڑا ہوا تو اس شریکے لفظ کی سمجھ لگی مجھے کہ اسے شریکا کیوں کہتے ہیں؟ شریکا آپ کو گالیاں تو دے سکتا ہے، دھتکار تو سکتا ہے مگر ایک وقت کا کھانا نہیں دے سکتا۔ جب پیٹ میں بھوک کی شدت سے مروڑ اٹھتے تھے مگر اِن حالات میں بھی کوئی اپنا، ہمارا حال پوچھنے نہیں آتا تھا۔ ہمیں شادی وغیرہ پہ بھی بلانا چھوڑ دیا تھا شریکے نے کہ یہ دونوں تو بس کھانا کھانے ہی آئیں گے بھوکے لوگ، دینے کے لئے اِن کے پاس اب ہے ہی کیا؟

محلے والے آ کر کبھی کبھار روٹی دے جایا کرتے تھے ہمیں۔ اِسی شریکے کی لاپرواہی نے مجھ سے میری ماں بھی چھین لی تھی۔ ہاں تب مجھے یاد ہے میں نے پیٹ بھر کھانا کھایا تھا۔ میرے ماموں، خالہ سب شریکے والے آئے تھے اور سب روتے بھی رہے تھے۔ خالہ تو چارپائی ہی پکڑ کے بیٹھ گئی تھی امی کی اور جانے کیا کیا یاد کر کے اونچا اونچا روتی رہی تھی۔ کیسا شریکا تھا؟ جب زندہ تھے تو کوئی پوچھنے بھی نہیں آتا تھا اور آج سب ہی امی کے جانے کے دکھ میں افسردہ تھے۔

میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہی شریکا میری ماں کو ایک وقت کا کھانا ہی دیتا رہتا اور چاہے بدلے میں گھر کے کام کروا لیا کرتا تو آج میری ماں زندہ ہوتی۔ دل کر رہا تھا کہ کوئی بم گرا کے آج سارے شریکے کو یہاں اسی جگہ دَفن کر دوں۔ بابا سچ ہی تو بولا کرتے تھے کہ چھوٹ نہیں ہو سکتی ہماری شاید اِسی لیے تو یہ شریکا میری ماں کی موت پہ اکٹھا ہوا تھا۔ سب بوٹیاں اور لیگ پیس کھانے میں مصروف تھے۔ اور میں ایک طرف بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اب میرا کیا بنے گا؟ کیا مجھے بھی یہ خالی پیٹ ماں کی طرح نگل جائے گا؟

Check Also

Gilgit Baltistan Mein Siyasi o Samaji Aloodgiyan

By Amirjan Haqqani