Sadqa Har Bala Ko Talta Hai Magar Biwi Ko Nahi
صدقہ ہر بلا کو ٹالتا ہے مگر بیوی کو نہیں
لاہور سے جب بیگم پاک کو لینے کے لیے نکلا تب کالی رات سرمئی شام کو نگل رہی تھی۔ ایک عجیب سی وحشت تھی۔ دل میں کوئی خوف تھا کہ جیسے کچھ انہونی ہونے والی ہے۔ لیکن بحالتِ مجبوری سسرال کی طرف سفر جاری رکھا۔ وقت کی ایک بری عادت ہے کہ گزر جاتا ہے اور وہی ہوا، تیس سے چالیس کلومیٹر کی رفتار کے باوجود فاصلہ ختم ہوگیا اور چند گھنٹوں بعد میں سسرالی گھر کے عین سامنے تھا۔
بیگم پاک کو دیکھنا وہی روزمرہ کا معمول لگا جبکہ بیٹی نے جب مجھے دیکھا تو خوشی سے چیخیں مارنے لگی اور پاپا پاپا کہتی بھاگ کے میری طرف لپکی۔ انابیہ کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ جوتا پہننا بھول گئی تھی اور آ کے گلے لگ گئی۔ لگا کہ دنیا بھر کی نعمتیں میرے بازؤں میں آ گئیں ہیں۔ یہ لمحہ جنت تھا۔ بیٹا ابتہاج سکندر بھی ملا۔ مگر وہ ابھی چھوٹا ہے تو بس میری طرف سے ہی اظہار تھا اُس کی طرف سے کچھ نہیں تھا۔
رات بہت دیر سے گھر پہنچا تھا تو تھکاوٹ کی وجہ سے جلدی سو گیا۔ صبح اُٹھا تو تین چار بینکوں میں کام تھا تو سارا دن اُدھر ہی گزر گیا۔ وہاں سے فری ہوا تو ایک دوست کی طرف کھانا تھا۔ اُدھر نکل گیا۔ رات پھر دیر سے گھر پہنچا۔ تب تک سب سو چکے تھے۔ سارا دن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ڈیٹا تنگ کرتا رہا تو میں نے آف کر دیا۔ صبح جب اُٹھا تو ڈیٹا آن کیا اور سوشل میڈیا دیکھنے لگا۔ واٹس ایپ پر سب سے پہلے بیگم پاک کا میسج دیکھا جو کہ کچھ اِس طرح سے تھا۔
" اللہ کرے کہ پولیس کا چھاپہ پڑ جائے"۔
میں حیران پریشان کہ چھاپہ کس لیے۔ جبکہ ہم سب دوست تو ہیڈ سلیمانکی مچھلی کھانے گئے تھے۔ جب بیگم پاک کے پاس گیا اور میسج کی وضاحت مانگی تو گویا ہوئیں کہ پولیس کے ڈنڈے نہ پڑے آپ کو؟ چھاپے سے بچ کیسے گئے آپ؟ سناؤ رات کو کتنے پیسے پھینکے؟ رج رج کے عیاشی کی ہوگی نہ؟ کچھ پیسے بچ گئے کہ سارے ہی اُڑا آئے ہو؟ میں حیرانی سے بیگم پاک کا منہ تکنے لگا؟ میں کوئی عربی طبیعت کا شہزادہ تھوڑی ہوں؟ یعنی اِس حد تک عیاش اور بدکردار ہونے کا ٹھپہ مجھ جیسے انتہائی شریف النفس انسان پر لگا دیا گیا جس کی وضاحت میں ایک لفظ تک کہنے یا سننے کی اجازت تک نہ ملی۔ میری ہر بات کو جھوٹ پر مبنی ایک کہانی تسلیم کیا گیا۔
ایک عدد بیوی اور دو عدد بچوں کے باپ ہونے کے طعنے دیے گئے اور کہا گیا کہ آپ جیسا لاپرواہ انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ پھر بیگم پاک اپنی ایک خواہش کا اظہار کرنے لگیں کہ کاش وہ پولیس میں ہوتیں تو خود رات کو چھاپہ مار کر سب کو کم سے کم پانچ سال کے لیے جیل میں سڑنے کے لیے بھیج دیتیں۔ اور صرف یہاں تک ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ ہمارے موبائل کی تلاشی لی گئی۔ انابیہ کی قسمیں بھی لی گئیں مگر بیگم کا کلیجہ تھا کہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ابھی ایک بینک کا مزید کام رہتا تھا تو بڑی مشکل سے اجازت لیکر گھر سے نکلا تو رستے میں کسی سیانے بابا کا قول یاد آ گیا کہ۔
"پُتر، عورت کو قابو کرنا ہو تو کالا جادو نہیں بلکہ دو جوڑے کپڑوں کے لگتے ہیں"۔
بس پھر کیا تھا بینک سے واپسی پر سیدھا زلبری برانڈ پر حاضری دی اور شاپنگ کر کے گھر آ گیا۔ بیگم پاک نے جب سوٹ دیکھے تو چہرہ جیسے کھل کے گلاب ہوگیا اور ہنس کے فرمانے لگیں کہ آپ کتنے اچھے ہیں۔ اللہ آپ جیسا شوہر سب کو دے اور میں بیگم پاک کے دوہرے رویے سے حیران ہوتے ہوئے دل ہی دل میں بابا جی کی نصیحت کو یاد کرنے لگا کہ۔
"پُتر، عورت کو قابو کرنا ہو تو کالا جادو نہیں بلکہ دو جوڑے کپڑوں کے لگتے ہیں"۔