Saare Pind Ka Aik Hi Baap Hai Kya?
سارے پِنڈ کا ایک ہی باپ ہے کیا؟
پرانے وقتوں کی بات ہے، اُس دور میں جب کہیں آنا جانا ہوتا تھا تو لوگ پیدل چلنے کو زیادہ ترجیح دیا کرتے تھے۔ ایک لگ بھگ پچاس سالہ بزرگ تب پیدل سفر کے لیے ایک گاؤں کی طرف روانہ ہوئے اور جب گاؤں سے چند کلومیٹر کا فاصلہ رہ گیا تو اُنہوں نے ایک چرواہے سے سلام دعا کی اور پھر پوچھا کہ پُتر تمہارا نام کیا ہے؟ اُس چرواہے نے اپنا نام بتایا اور پھر بزرگ نے کہا کہ اچھا، والد کا کیا نام ہے تو چرواہا بولا کہ بابا جی میرے والد کا نام "حاکم دین" ہے۔
بزرگ نے پھر گاؤں سلام پورہ کا پوچھا اور چرواہے کے بتائے گئے راستے کی طرف چل پڑے۔ کچھ آگے گئے تو ایک گھبرو جوان فصلوں کو پانی دے رہا تھا۔ بزرگ اُس لڑکے کے پاس گئے اور اُس سے بھی نام اور والد کا نام پوچھا۔ اُس لڑکے نے بھی اپنا نام بتا کر والد کا نام "حاکم دین" بتایا۔ وہ بزرگ تھوڑا حیران تو ہوئے لیکن خاموشی سے یہ سوچ کر آگے بڑھ گئے کہ ہو سکتا ہے یہ چرواہے کا بھائی ہو۔
مزید کچھ فاصلہ ناپا تو پھر ایک لڑکا مل گیا اور بزرگ نے اُس سے بھی وہی سوال دوہرائے جو وہ پیچھے کر چکے تھے۔ اُس لڑکے نے اپنے نام کے بعد والد کا نام "حاکم دین" ہی بتایا تو بزرگ ششدر رہ گئے لیکن کچھ کہے بغیر ہی گاؤں کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ کہتے ہیں کہ اِسی ترتیب کے ساتھ اُن بزرگوں کو کُل سات لڑکے ملے اور سب نے اپنے والد کا نام "حاکم دین" ہی بتایا تو جب آخری لڑکے سے بات ہوئی تو بزرگ نے پوچھ ہی لیا کہ پُتر ایک بات تو بتا۔ کیا اِس پورے گاؤں کے لوگ حاکم دین کی اولاد ہیں؟
جس سے بھی پوچھتا ہوں سب اُسی کا ہی نام لیتے ہیں۔ لڑکا حیران ہوا اور جب وجہ پوچھنے پر بزرگ نے ساری تفصیل بتائی تو تب اُس لڑکے نے قہقہہ لگایا اور بولا کہ بزرگو، ایسا کچھ نہیں ہے، اصل میں ہم سات بھائی ہیں اور آپ کی ملاقات اتفاق سے ہم ساتوں بھائیوں کے ساتھ ہی ہوگئی ہے۔ بس میں حاکم دین کا آخری بیٹا ہوں۔ اب اگر آگے کوئی آپ کو ملے گا تو وہ ہمارا بھائی یا حاکم دین کی اولاد نہیں ہوگا۔
بزرگ مسکرائے اور دعائیں دے کر آگے بڑھ گئے۔
اتفاق محض ایک حالت یا ایک واقعہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی مستقل شے نہیں ہوتی۔ آپ اِسے جُوا بھی کہہ سکتے ہیں۔ لگ گیا تو لگ گیا نہ لگا، نہ لگا۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم کسی اتفاق کو حقیقت سمجھتے ہوئے اُس اتفاق کے بل بوتے پر زندگی کے بڑے بڑے فیصلے کر لیتے ہیں اور بعد میں سوائے پچھتاوے اور پریشانی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اتفاق سے اگر کسی کی کوئی لاٹری نکل آئے، کسی کی اچھی نوکری لگ جائے یا کوئی بھی شاندار موقع کسی کے ہاتھ میں آ جائے تو وہ انسان بہت خوش ہو جاتا ہے۔ خود کو کامیاب تصور کرنے لگتا ہے جبکہ یہ کامیابی وقتی ہوتی ہے جو کہ اتفاق سے آپ کو ملی ہوتی ہے۔
آپ زندگی میں ہونے والے اتفاقات سے حقیقی معنوں میں تب ہی فائدہ حاصل کر پاتے ہیں جب آپ میں اُس ملنے والے موقع کو پالش کر لینے کی قابلیت موجود ہوتی ہے۔ اگر آپ سنبھالنا جانتے ہیں تب ہی مستقل طور پر کامیاب رہ پاتے ہیں ورنہ چند دن کے بعد سب کچھ ہواؤں میں اُڑ جاتا ہے اور آپ خالی دامن لیے تقدیر کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ خود کو قابل بنائیں کیونکہ قابلیت ہی اصل مواقع سے فائدہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوا کرتی ہے۔
اتفاق نامی بیماری سے جان چھڑوائیں کیونکہ پہلی بات یہ کہ آپ اتفاق سے امیر نہیں ہو سکتے اور اگر آپ امیر ہو بھی جاتے ہیں تو یہ اتفاق تب زیادہ دیر تک نہیں چلے گا اگر آپ قابل نہ ہوئے تو۔ اِسی لیے اتفاقات کی دنیا سے باہر آ جائیں اور حقیقت کو دیکھنے والی عینک پہننا شروع کریں۔ یاد رکھیں کہ کامیابی حاصل کر لینا تو کسی حد تک ممکن ہے مگر اُس کامیابی کو مستقل رکھ پانے کا فی الحال کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں ہے۔ اُس کے لیے قابلیت اور محنت کا ہونا ہی ضروری عنصر ہے۔