Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Rishte Bacha Lein Warna Ye Mar Jayenge

Rishte Bacha Lein Warna Ye Mar Jayenge

رشتے بچا لیں ورنہ یہ مر جائیں گے

کچھوا پانی اور زمین دونوں جگہ پہ رہنے والا جانور ہے، چونکہ یہ تیز بھاگ نہیں سکتا رینگنے والا جانور ہے تو اِسی لیے پھر یہ شکار کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرتا بلکہ سکون سے شکار کا انتظار کرتا ہے اور کیونکہ یہ ایک سست جانور ہے شاید اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے اِس کو غیر معمولی صبر کرنے کی عادت سے نوازا ہے۔ یہ کئی دن تک صبر کر سکتا ہے۔

کچھوا اپنے سخت خول کی وجہ سے مشہور ہے جو کہ اِس کو ہر طرح کے دشمنوں اور خطرے سے بچاتا ہے۔ یہ کئی ہفتوں تک اپنے اِس خول کے اندر رہ سکتا ہے۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ کچھوے کی اصل طاقت اِس کا سخت خول ہی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ خود سے بڑے اور طاقتور دشمنوں سے بھی بچ جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھوے کی سب سے بڑی طاقت اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہوتی ہے؟

وہ ایسے کہ اگر کبھی کچھوا اُلٹا گِر جائے تو اُس کے لیے دوبارہ اُٹھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی سخت خول جو اُس کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اُس کے لیے سب سے بڑی دشمن بن جاتی ہے۔ کچھوا اُلٹ جانے کے بعد سیدھا ہونے کے لیے بڑی کوشش اور تگ و دو کرتا ہے۔ سر کو لمبا کر کے اُسے زمین پر آگے پیچھے کرتا ہے جس کی مدد سے اُس کا جسم کچھ حرکت میں آتا ہے اور پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ اُس کے پاؤں زمین کو پیچھے کی جانب دھکیل سکیں کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کے سیدھا ہونے کے چانسز بڑھتے ہیں۔

کچھوا جب اُلٹا ہوتا ہے تب اگر وہ کسی دھوپ والی جگہ پر ہو تو اُس کی موت بڑی جلدی ہو جاتی ہے کیونکہ کچھوا سرد جسمانی خدوخال کا مالک ہوتا ہے اور اِسی وجہ سے اُسے پسینہ بھی نہیں آتا اور دھوپ چونکہ کسی کے لیے بھی اچھی نہیں ہوتی تو کچھوا تو پھر سرد جِلد والا جانور ہے تو اِسی لیے یہ جلدی مر جاتا ہے۔ کچھوے سیدھا ہونے کی بار بار کوشش کرتے ہیں جن میں سے بہت ہی کم ریشو سیدھا ہونے میں کامیاب ہوتی ہے ورنہ وہ ایسے ہی مر جاتے ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی طاقت ہی اُن کی جان لے لیتی ہے۔ گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگ جاتی ہے۔

ہماری زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی طاقت ہی ہماری رَگ پکڑتی ہے۔ ہم تڑپنے لگتے ہیں اور اذیت کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ خودکشی کر لیتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی طاقت، ہمارا فخر ہمارے اپنے، سگے اور پیارے رشتے ہی ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ہم جیتے ہیں، جن پہ مان کرتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ جب یہی فخر، طاقت ہماری دشمن بن جاتی ہے اور ہم زندہ رہنے کی بجائے مر جانا بہتر سمجھتے ہیں۔

خودکشی کرنے والا خوشی سے خود کی جان نہیں لیتا بلکہ وہ قتل ہوتا ہے، اِس برے سماج کے ہاتھوں، اپنے سگے رشتوں کی وجہ سے۔ مرنے والے کے گلے میں پھانسی کا پھندہ اُس کے قریبی رشتوں کی طرف سے دی جانے والی اذیت لگاتی ہے۔ جانے کیوں رشتے گلے کا پھانس بن کے رہ جاتے ہیں، خود غرضی اور مطلب پرستی کی ساری حدیں پار کر جاتے ہیں۔ ہم کیوں اچانک اپنے بیٹے، باپ، بھائی بہن یا کسی بھی قریبی رشتے کی تکلیفوں اور پریشانیوں کو سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اُنہیں تکلیف دینے لگ جاتے ہیں۔

اپنی مرضی اور خود غرضی کی وجہ سے دوسروں پہ طنز طعنوں کی بوچھاڑ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی پریشان ہو تو پوچھنا گوارا نہیں کرتے کہ کیا ہوا ہے؟ اِتنے پریشان کیوں ہو؟ سب خیریت تو ہے نا؟ ہمارا یوں سوال نہ پوچھنا ہمیں مجرم بنا رہا ہے مگر ہم سمجھ نہیں پا رہے ہیں؟ اَنا آڑے آ جاتی ہے کہ ہم پہل کیوں کریں، اگلا خود بتا دے کہ اُسے کیا مسئلہ ہے؟ اور یہی سوچیں اور باتیں کئی لوگوں کی جانیں لے رہی ہیں۔

خدارا اپنوں پر رحم کریں، اُنہیں ریلیکس رکھنے کی کوشش کریں، اُن کو سمجھیں اور وقت دیں۔ کوئی فرشتہ نہیں ہے اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کر دیں۔ اذیت نہ دینے لگ جائیں۔ تکلیفیں نہ دیں بلکہ پاس بلا کر، بِٹھا کر پیار سے سمجھائیں اور اُنہیں یہ احساس دلائیں کہ رشتے پیار اور ادب و احترام سے نبھائے جاتے ہیں۔ ایسی کوئی حرکت یا بات نہیں کرتے کہ جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ پیار بانٹنا سیکھیں ورنہ رشتوں میں پیدا والی گھٹن سونامی بن کر سارے رشتے بہا لے جائے گی اور ہم منہ تکتے رہ جائیں گے۔

Check Also

Tareekh Se Sabaq Seekhiye?

By Rao Manzar Hayat