Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Pyar Ka Pehla Shehar

Pyar Ka Pehla Shehar

پیار کا پہلا شہر

یہ کتاب وہ شعلہ فشاں خنجر ثابت ہوئی ہے، جس کی چمکتی، لرزتی دھار میرے قلب کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ گئی ہے۔ کتاب پڑھی تو شدّت سے احساس ہوا کہ دنیا میں محبت اپنا کوئی پیامبر کیوں نہیں بھیج دیتی کہ جو سب کو بتلائے کہ محبت کرو گئے تو ہجر کے دہکتے جہنم میں ڈال دیے جاؤ گے۔

یا شاید جدائی ہی وہ بیج ہوتا ہے جو محبت کو پھل دار، مضبوط اور تناور درخت بناتا ہے یا یہ کہ محبت کا پھل بِنا ہجر کے بڑا بدمزہ ہوتا ہے اسی لیے محبت میں جان بوجھ کر جدا ہو جانا ہی محبت کو اَمر کرتا ہے۔

مستنصر حسین تارڑ صاحب جتنا لمبا نام ہے اُس سے کہیں زیادہ بڑا مقام ہے۔ ایک ایسے ادیب جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کی ہر کتاب ایک ایسی دنیا ہے جو پڑھنے والے کو اپنے طلسم میں جکڑ لیتی ہے۔ تارڑ صاحب کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا کے کہ ان کی تاریخ پر بہت مضبوط گرفت ہے۔ جب وہ کہانی سنانے کے دوران تاریخ کے متعلق بتاتے ہیں تو کہانی سننے میں مزید مزہ آنے لگتا ہے۔ ان کی کتاب "پیار کا پہلا شہر" پڑھنا شروع کی تو آنکھون سے ایسے چپک گئی جیسے افطار کے وقت کسی روزہ دار کے ہونٹوں کو پانی کا گلاس چپک جاتا ہے۔ اس قدر محو کر دینے والی کہانی کہ آنکھوں نے بھی پوری کتاب ایک ہی وقت میں پڑھ لینے کی قسم کھا لی۔

سنان(ہیرو) اور پاسکل(ہیروئن) نے کچھ اور کرنے ہی نہیں دیا۔ کہانی محبت کی ہے کہ جہاں پاسکل سب کچھ جانتے ہوئے بھی سنان سے محبت کر بیٹھتی ہے اور محبت ہوتی بھی کیسے ناں؟ محبت پر بس کس کا چلا ہے آج تک؟ یہ تو بائیو کے اس ایکشن کی طرح ہے جس پر ہمارا کوئی قابو نہیں ہوتا جیسے ہم چاہ کر بھی دل کو دھڑکنے سے نہیں روک سکتے۔ معدے کو خوراک ہضم کرنے سے منع نہیں کر سکتے۔ بالکل ویسے ہی ہم خود کو محبت سے باز رکھنے میں بھی بےبس ہوتے ہیں۔ محبت اپنے ہاتھ سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہر جوان دل کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور آج تک ایسا نہیں ہوا کہ دستک کے بعد دروازہ نہ کھلا ہو۔

وہی دستک جب پاسکل کے دل پر ہوئی تو پاسکل نے بھی دروازہ کھول کر محبت کو اندر آنے دیا مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ محبت کے بیج بونے والے جدائی کی فصل کاٹتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ محبت پاسکل اور سنان کو وصل نصیب ہونے دیتی۔ محبت نے وہی کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتی آئی ہے۔ جو اس نے ہیر رانجھا، لیلی مجنوں کے ساتھ کیا تھا وہی سب سنان پاسکل کے ساتھ بھی کیا اور دونوں میں جدائی میں فیصلہ سنا کر قلم توڑ دیا۔

تارڑ صاحب سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی مگر وقت نے کبھی یہ موقع دیا تو میں تارڑ صاحب سے یہ ضرور کہوں گا کہ "سر تسیں پاسکل نال چنگی نہیں کیتی"۔ خیر پڑھنے والوں کے ساتھ بھی اچھی نہیں کی کیونکہ آخری صفحہ آپ کے دل اور موڈ دونوں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیتا ہے۔ اُداسی کی چادر آپ کے وجود کو اپنی لپیٹ میں کر لیتی ہے اور آپ آس پاس کے محرکات سے بےخبر جانے کس دنیا میں کھوئے چلے جاتے ہیں۔۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad