No To Protocol
نو ٹو پروٹوکول
مجھے ذاتی طور پر شادیوں میں جانا بالکل پسند نہیں ہے۔ کوئی بہت ضروری ہو تو چلا جاتا ہوں۔ میں شادی پہ جاؤں بھی تو میرے ذہن میں کبھی کھانا نہیں آتا۔ بس عزیزوں سے میل ملاپ ہو جاتا ہے۔ ہلکی پھلکی گپ شپ ہو جاتی ہے تو اچھا محسوس ہوتا ہے۔
ایسے ہی چند سال پہلے ایک شادی پر گیا تو ایک قریبی کزن سے لمبی بات چیت شروع ہوگئی۔ مختلف موضوعات پر سیرِ حاصل گفتگو ہوئی۔ ہم باتوں میں مگن تھے مگر مہمانوں کے چہروں پر بےچینی کے تاثرات بڑھتے چلے جا رہے تھے اور وجہ روٹی کا وقت پر نہ کُھلنا تھا۔
مہمانوں کے کان یہ سُننے کو ترس رہے تھے کہ کوئی آئے اور کہہ دے کہ "روٹی کھول دے شفیق احمد" مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔
پتہ چلا کہ اِس شادی پہ شہر کے ایم پی اے صاحب کو بھی دعوت نامہ بھیجا ہوا ہے۔ چونکہ ایم پی اے صاحب ابھی تک پہنچے نہیں ہیں تو اِسی لیے روٹی بھی نہیں کُھل رہی تھی۔ سب کو یہی کہا گیا کہ جب ایم پی اے صاحب آئیں گے تب مہمانوں کو کھانا پیش کیا جائے گا۔ میں ویسے تو شاید وہاں ضرور بیٹھتا مگر جب اِس جاہلانہ بات کا علم ہوا تو انتظامیہ کی سوچ کو کوستا ہوا وہاں سے فوراً رخصت ہوگیا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بھئی آپ کا دل اِس بات کے لیے مان کیسے جاتا ہے کہ صرف ایک شخص کی خاطر آپ تین چار سو بندوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کسی ایک آدمی کے لیے اتنے زیادہ لوگوں کو بھوکا بٹھا لیتے ہیں۔ کیا آپ کی نظر میں صرف وہ ایک شخص اہم ہوتا ہے باقی سب کمّی کمین ہوتے ہیں یا کوئی فقیر، پکھی واس جن کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کرنے سے بھی آپ کو شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔
میں نے تو تب سے یہ روٹین بنا لی ہوئی ہے کہ کسی بھی ایسی شادی میں بالکل شرکت نہیں کرتا کہ جہاں کسی وی آئی پی انسان کو بھی بلاوا بھیجا گیا ہو۔ جہاں بس ایک انسان ہی سب سے اہم اور بڑا ہو اور باقی سب چھوٹے اور عام ہوں۔ یاد رکھیں کہ ایسے ذہنی مریضوں کی شادیوں میں جانا خود اپنے ساتھ زیادتی کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہم خود اپنے آپ کو اِتنی عزت تو دے ہی سکتے ہیں کہ جن کے لیے ہم اور ہمارا وقت اہمیت کا حامل نہیں ہوتا تو پھر ہم کیوں اُنہیں اپنی دستیابی اور قیمتی وقت دیں۔
آئیں اور عہد کریں کہ آئندہ اس پروٹوکال سسٹم کا حصہ نہیں بنیں گے اور ایسی شادیوں پر جانا بند کر دیں گے کیونکہ پیٹ تو دو سموسے کھانے سے بھی بھر جاتا ہے کہ جو ضمیر کا سودا کرکے لیگ پیس کھانے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔