Naseebo Jali
نصیبو جلی
بادل خوب گرج رہے تھے۔ اندھیری رات میں کڑکتی دودھیا روشنی پوری صحن کو روشن کر دیتی تھی۔ بوچھاڑ کا مینہ زمین کی پیاس بجھانے میں پوری طرح سے مگن تھا۔ رات اُس کے اندر کی طرح ڈراؤنی لگ رہی تھی۔ وہ برآمدے میں چارپائی پر لیٹی بس یہی سوچ رہی تھی کہ تیز بارش میں یہ کوندتی لپکتی بجلی کچھ دیر کے لیے ہی سہی، مگر پورے صحن کو روشن کر دیتی ہے اور اِک یہ میرے کورے ہاتھ ہیں، نِری چٹیل ہتھیلیاں کہ جن پر شادی کی کوئی لکیر ہی نہیں ہے۔
میرے نصیب بھی اِس سیاہ رات کی طرح کالے ہیں۔ وقت کی سوئیاں آہستہ آہستہ میرے شباب کو کسی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اور شباب بھی کیا؟ شباب تو گورا بدن ہوتا ہے اور میرا بدن تو بالکل توّے جیسا ہے۔ اِس کالی چمڑی کو بھی کوئی شباب کہتا ہے بھلا؟ پلکیں اندر کے نکلتے لاوے سے جلنے لگیں تھیں۔ آج نویں باری تھی، جب اُس کے اندر ٹھکرائے جانے کی اذیت نے عزتِ نفس کے ٹکڑوں میں اضافہ کیا تھا۔ ہر بار اُسے کسی جانور کی طرح کھلا پلا کر، نہلا دھلا کر، اچھے کپڑے پہنا کر سوداگروں کے سامنے پیش کر دیا جاتا تھا اور ہر بار وہ کالی رنگت کے جرم میں انکار کی بھینٹ چڑھا دی جاتی تھی۔
وہ مہمانوں کے چلے جانے کے بعد بہت روتی، اپنے نصیبوں کو کوستی، اپنی کالی چمڑی کو ناخنوں سے نوچتی اور کہتی کہ اِسی منحوس کی وجہ سے میں آج پھر دھتکاری گئی ہوں۔ وہ نیم پاگل سی ہو جاتی اور کہتی کہ یہ معاشرہ ظاہر کا پچاری ہے، ظاہری خوبصورتی کو دیکھنے والے منافق لوگ اپنی زبان سے یہ بکواس کرتے نہیں تھکتے کہ نیک دل اور اچھی سیرت ہونی چاہیے تو کیوں پھر اِن پتھریلی آنکھوں والوں کو میرا حسّاس دل نظر نہیں آتا۔ میرے اندر کی سیرت اور پاکیزگی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ ہچکیوں کے ساتھ رونے لگتی اور خدا سے دعا کرتی کہ مجھے اُٹھا لے میرے مالک۔ اپنے پاس بلا لے مجھے۔
یہ کرب سہنے والی وہ اکیلی نہیں تھی۔ اُس کی ماں بھی اُس کے ساتھ روتی تھی۔ دعائیں مانگتی تھی اور ہر بار رشتہ دیکھنے آنے والے اِک اُمید بن کر آتے اور دکھ کو بڑھاوا دیکر چلے جاتے۔ وہ ماں تھی، بیٹی کا دکھ جانتی بھی تھی اور اُس تکلیف سے گزرتی بھی تھی۔ وہ بھی جانتی تھی کہ کالی چمڑی کے اندر جوان خون دوڑتا ہے۔ جوانی کے جذبات اُمڈتے ہیں اور جوانی کی حفاظت خود نہیں کی جاتی یہ ہمیشہ دوسرے سنبھالتے ہیں۔ خود کا وجود دوسروں کے بازؤں کا محتاج ہوتا ہے۔
کتنا بڑا المیہ تھا کہ محض چمڑی کے رنگ کی وجہ سے وہ اپنے خواب، جوانی، شوخیاں، ناز سب سے دستبردار تھی۔ کسی پر کوئی حق نہیں تھا۔ وہ بھی محبت کرنا چاہتی تھی، شرارتیں کرنا، چھیڑ چھاڑ، اور نکھرے دکھانا چاہتی تھی۔ کوئی ہوتا جو مناتا، شعر کہتا، پھول دیتا، بالوں میں لگاتا، بازو تھامتا، پیار جتاتا۔ مگر، نہیں۔ وہ تو ازلوں سے تنہا تھی۔ بچپن سے ہی اکیلی رہتی آئی تھی اور اب جوانی بھی آخری سانسیں گِن رہی تھی۔
۔۔
برستی بارش میں اُس کی سوچیں گہری ہوتی چلی گئیں۔ ماں اندر کمرے میں سو رہی تھی۔ وہ برآمدے سے اُٹھ کر باہر صحن میں آ گئی۔ بارش میں نہانے لگی، دوپٹہ اوڑھ کر شرمانے لگی۔ پھر گھونگھٹ پہن کر خود کو ہر زاویے سے دلہن کے روپ میں دیکھنے لگی۔ رونے لگی۔ دوپٹہ دور پھینک کر آزاد ہو کر خود کی نسوانیت کو ٹٹولنے لگی۔ سوچنے لگی کہ آخر کمی کیا ہے؟ نہ قد چھوٹا ہے، نہ گونگی ہوں، بھرپور بدن کے ساتھ ایک مکمل لڑکی ہوں۔ لیکن بس یہ کالی رنگت۔
وہ جذباتی ہوگئی اور کہنے لگی کہ میں آج اِس رنگت کو ہی ختم کر دوں گی۔ میں اِس خرابی کو جڑ سے ہی کاٹ ڈالوں گی۔ وہ چھوٹے کمرے میں گئی تیل کی بوتل اُٹھا کر باہر لے آئی۔ آنکھوں سے آنسو بارش کی طرح بہنے لگے۔ وہ روتے روتے تیل کو خود پر چھڑکنے لگی اور پھر ماچس کی تیلی سے خود کو آگ لگا لی اور ساتھ ہی بارش بھی رُک گئی۔
اب صحن میں بادلوں کی گرج کی جگہ اُس کی چیخوں نے لے لی تھی اور چمکتی بجلی کی بجائے اُس کے بدن کو جھلساتے آگ کے شعلے پورے گھر میں روشنی پھیلانے لگے تھے۔