Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Mujhe Sab Pata Hai

Mujhe Sab Pata Hai

مجھے سب پتہ ہے

کہتے ہیں کہ آدھی ادھوری معلومات زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ آپ تب تک کوئی کام نہ کریں جب تک کہ اُس بارے میں آپ کوئی مکمل جانچ پڑتال نہیں رکھتے۔ جس چیز کے متعلق آپ جانتے نہیں آپ وہ کام نہ کریں اور اگر کوئی پوچھے یا مشورہ لے تو معذرت کر لیں کہ آپ کو اِس بات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے یا آپ متعلقہ موضوع کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔

ہمارے ہاں جہاں اِتنے مسائل ہیں وہاں ایک بیماری "مجھے سب پتہ ہے" کی بھی ہے۔ پاکستان میں خاص طور پر اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ہر بات میں مشورہ دینا، بولنا، بتانا اور اپنا تجزیہ پیش کرنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ آپ کو یہاں کوئی یہ کہتا نہیں ملے گا کہ بھائی مجھے نہیں پتہ، معذرت۔ بلکہ وہ آپ کے ہر سوال کا جواب لازمی دے گا چاہے وہ غلط معلومات ہی کیوں نہ ہوں۔

آپ کسی سے کچھ بھی پوچھ کر دیکھ لیں، یہاں ہر آدمی اپنی زبان پر انسائکلو پیڈیا اور گوگل لیکر گھوم رہا ہوتا ہے۔ آپ کو ہر سوال کے کئی جواب مل جاتے ہیں۔ منع کوئی نہیں کرتا۔

مثال کے طور پر اگر کسی فنکشن میں کوئی انسان اچانک بیمار پڑ جائے یا بیماری یا کسی درد سے نڈھال ہو کر ڈھے جائے تو ڈاکٹر کو بلانے کی باری بہت بعد میں آتی ہے پہلے سب کی طرف سے مشورے آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ارے اِتنا بیمار تھوڑی ہوا ہے جو ہسپتال لیجایا جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ ٹھنڈا پانی پلا دو، کوئی جوس کا مشورہ دے دیتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ لکھوا لو مجھ سے اِس کا بی پی لو ہوا ہے۔ کسی کو مِرگی نظر آنے لگتی ہے تو کوئی زیادہ گرمی کی وجہ بتاتا ہے۔ کسی کو لیموں کا رس پلانے کا خیال آتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ اینے نئیں جے بچنا اینوں لاہور لے جاؤ۔

یعنی جتنے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں اُتنے ہی خود کو ڈاکٹر ثابت کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ یہ جانے یا یہ سمجھے بغیر کہ آیا مریض کو اصل میں ہوا کیا ہے۔ بیماری کیا ہے؟ وہ بغیر جانے اپنی سوچ کے مطابق علاج کے مشورے دینے سے باز نہیں آتے۔

وہاں ایسا کوئی نہیں ملتا کہ جو یہ کہے کہ " بھائی مجھے نہیں پتہ؟ میرے خیال میں ہمیں ڈاکٹر کے پاس چلے جانا چاہئیے۔

ہماری بہت سی پریشانیوں اور ناکامیوں کی وجہ یہی آدھی ادھوری معلومات ہی ہوتی ہیں جو ہمیں کامیاب نہیں ہونے دیتیں۔ ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔ ہم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ ہر انسان ہر بات نہیں جان سکتا۔ ایک ہی انسان کے پاس سارے علم نہیں ہو سکتے۔ کچھ نہیں ہوگا اگر ہم کوئی بات بتانے سے منع کر دیں گے۔ کسی کی نظر میں ہم ہرگز چھوٹے نہیں پڑیں گے اگر یہ کہہ دیں گے کہ بھائی میں اس بارے میں نہیں جانتا۔ آخر ہم کیوں خود کو افلاطون ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ صاف کہہ کیوں نہیں دیتے کہ بھئی مجھے نہیں پتہ؟ آپ کسی متعلقہ بندے سے بات کر لو۔

کتنا آسان سا فارمولا ہے کہ جس چیز کا نہیں پتہ، اُس کے متعلق اگر پوچھا جائے تو ناں کرنی ہے۔ بتا دینا ہے کہ آپ نہیں جانتے؟ اور زندگی کتنی آسان اور مزے کی ہو جائے گی۔ آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگیں گے۔ کام سے کام رکھنے میں بھی سکون ملنے لگے گا۔

تو کیا خیال ہے؟ آج پھر یہ عہد کر لیں کہ اب کہیں بھی گوگل نہیں بننا۔ ہر بات کا جواب نہیں دینا۔ کسی کو یہ ظاہر نہیں کرنا کہ مجھے سب پتہ ہے۔ مفت کےمشوروں سے اجتناب برتنا ہے۔ بس کام سے کام رکھنا ہے۔ یاد رکھیں یہ عادت ہماری زندگی میں بہت بڑی تبدیلی لے آئے گی۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam