Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Mujhe Mere Bachpan Se Nafrat Hai

Mujhe Mere Bachpan Se Nafrat Hai

مجھے میرے بچپن سے نفرت ہے

بچپن وہ واحد خواہش ہے کہ جو ہر آدمی کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ واپس اپنے بچپن کی طرف لوٹ جائے لیکن مجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوئی۔ اِس کی وجہ میری زندگی کے وہ بدترین اور اذیت ناک لمحے ہیں کہ جنہیں میں یاد بھی نہیں کرنا چاہتا۔

گھر اناج سے خالی اور فاقوں سے بھرا رہتا تھا۔ پرائمری میں تو یاد بھی نہیں پڑتا کہ کبھی جیب خرچ کے پیسے بھی ملے ہوں۔ تفریح یعنی بریک ٹائم سب لڑکے اسکول کے باہر آئے جھانپڑی والوں سے چیزیں خریدتے۔ کوئی سموسہ لے کر کھا رہا ہوتا تو کوئی امرود، کینو یا کون قلفی وغیرہ اور میں للچائی نظروں سے دیکھ کر ہی پیٹ بھر لیا کرتا تھا۔ کہنے کو میں اسکول کا سب سے ہونہار اور فرسٹ آنے والا لائق بچہ تھا مگر جیب کے لحاظ سے سب سے پیچھے تھا۔

ایسے ہی ایک دن اسکول میں کتابیں جِلد کرنے والا جانے کہاں سے آ گیا۔ باتوں ہی باتوں میں دماغ میں یہ وہم ڈال دیا کہ کتابیں جلد نہ کروائیں تو شاید ایک دو مہینوں میں ہی پھٹ جائیں گی۔ ڈر کے مارے فوراً چھٹی لیکر گھر پیسے لینے چلا گیا اور خوب ڈانٹ کھائی کہ یہ خیال ذہن میں آیا بھی کیسے؟ مار کھا کے روتے ہوئے اسکول واپس آ گیا اور جِلد والے بھائی کو دل ہی دل میں خوب کوسا اور گالیاں دیں۔

پھر ایلیمنٹری اسکول میں چلا گیا۔ وہاں بھی غربت نے پیچھا نہ چھوڑا۔ وہاں جو آدمی سموسے پیچنے آتا تھا وہ ہمارے ہی گاؤں کا تھا تو اُس سے اُدھار کا بول کر ایک چھوٹا سموسہ لیکر کھا لیا کرتا تھا اور اُس کی منتیں کرتا تھا کہ بھائی گھر نہ بتانا۔ میں یہاں بھی ٹاپر تھا مگر تعلیم کی حد تک۔

ایک دن ہمسایوں کے لڑکے اپنے گھر میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ میں بھی چلا گیا اور میری بیٹنگ کے دوران میری شاٹ سے اُن کی گیند گُم گئی۔ وہ مجھ سے گیند کی ڈیمانڈ کرنے لگے۔ میں نے بہت ڈھونڈا، جانے کتنی ہی دیر تک ڈھونڈتا رہا تھا مگر گیند نہیں تھی ملی۔ اُنہوں نے پیسے مانگے اور میرے پاس تھے نہیں تو اُنہوں نے گھر شکایت لگا دی۔ اُس دن بھی مجھے بہت مار پڑی تھی۔ میں نے توبہ کی تھی کہ آج کے بعد کچھ نہیں کھیلوں گا۔

پھر ہائی اسکول چلا گیا۔ وہاں تو پہلے سے بھی زیادہ امیر لڑکے ہوتے تھے جو روزانہ اپنی موٹر بائیک پر آتے اور بریک کے وقت باہر نان چھولے، سموسے، بریانی اور جانے کیا کیا کھاتے۔ تب مجھے کبھی کبھار پانچ روپے مل جایا کرتے تھے۔ جن سے میں دو نان اور چنے کھا لیا کرتا۔ میری ریاضی کمزور تھی تو مجبوراً ٹیوشن شروع کرنا پڑا۔ ٹیوشن کی اجازت اور پیسوں کا بندوبست کرنے کی ایک الگ دردناک کہانی ہے۔ وہ پھر کبھی سہی۔ سالانہ پیپر سے محض دو مہینے پہلے ٹیوشن شروع کر دی تھی۔ اور اِن دو مہینوں میں صبح سے لیکر شام تک بھوکا رہتا تھا۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے نکلتا تھا اور شام کو ٹیوشن سے فری ہو کر گھر جا کے رات کا کھانا کھاتا تھا۔

گرمی کی چھٹیوں میں محنت مزدوری کیا کرتا۔ کوئی ایسا کام نہیں تھا جو نہ کیا ہو؟ دھان کی پنیری گرم تپتے پانی میں لگائی، گندم کاٹی، دھان کاٹی، اینٹیں اٹھائیں، ہر طرح کی مزدوری کی اور شکم کی آگ کو بجھانے میں لگا رہا۔

میٹرک میں بھی پوری کلاس میں ٹاپ کیا تھا میں نے۔ پھر اچھی پڑھائی کی غرض سے لاہور آ گیا تو بس یہیں کا ہو کے رہ گیا۔ یہاں اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اکیڈمیز میں بھی پڑھانا شروع کر دیا تھا تاکہ اپنا خرچہ نکال سکوں اور آہستہ آہستہ حالات بہتر ہونے لگے اور پھر اللہ نے ہاتھ پکڑ کر پوری زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔

پھر شادی کر لی اور رزق بڑھنے لگا اور جب انابیہ ہوئی تو رزق کے تو چھپڑ پھٹنے لگ گئے۔ رزق تو جیسے پر لگا کر اُڑنے لگا۔ مجھے ہر اس چیز سے نواز دیا گیا کہ جس جس کی بھی کبھی میں نے خواہش کی تھی۔ ساری محنتوں اور قربانیوں کا پھل عطا کر دیا گیا۔ اُس رب ذات کا بہت بہت شکر ہے کہ جس نے کبھی گِرنے نہیں دیا۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

Check Also

America, Europe Aur Israel (2)

By Muhammad Saeed Arshad