Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Mujhe Mat Dutkaro

Mujhe Mat Dutkaro

مجھے مت دھتکارو

سرمئی شام باہیں کھولے رات کو خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ سورج اپنا کام کر کے سونے کے لیے جا چکا تھا۔ درخت چڑیوں کے شور سے جاگ رہے تھے اور میں بھینسوں کا دودھ نکال کر امی کو دے ہی رہا تھا کہ اچانک جیسے شام کا منظر کسی سنہری صبح میں بدل گیا۔ میری خالہ اپنی بیٹی اور شوہر کے ساتھ ہمارے گھر میں داخل ہو رہے تھے۔ خالہ شادی کے بعد اِسلام آباد چلی گئیں تھیں اور گاؤں تو بمشکل ہی کوئی تین چار بار آئی ہونگی۔

اِسلام آباد ہمارے گاؤں سے دس گھنٹوں کی دوری پر ہے تو اِسی لیے ہم لوگوں کو بھی وہاں گئے کوئی دس سال تو گزر ہی چکے ہونگے۔ خالہ کی بیٹی سونیا بلال کو آج سالوں بعد دیکھ رہا تھا۔ لگ رہا تھا، جیسے کسی دودھیا روشنی کے ملاپ سے اُس کے وجود کو ڈھالا گیا ہے۔ وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔ امی خالہ کو ملیں تو آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں، اور پھر سونیا کو بھی گلے لگا کر خوب پیار دیا۔

میں نے بھی آگے بڑھ کر انکل کو سلام کیا اور سر کو خالہ کے آگے کر کے اُن سے دعائیں لیں۔ خالہ کہتیں کہ ماشاءاللہ وجاہت بیٹا تو بہت گھبرو جوان ہوگیا ہے۔ پھر اُنہیں صحن میں بچھیں چارپائیوں پر بٹھایا اور امی کھانے کے انتظام میں لگ گئیں۔ میں باہر سے سودا سلف لینے چلا گیا۔ کھانا تیار ہوا تو دسترخوان لگا کر سب بیٹھ کر کھانے لگے اور امی اور خالہ اپنے پرانے قصے چھیڑ کر باتیں کرنے لگیں۔

انکل نے مجھ سے پوچھا کہ اور سناؤ برخوردار، آپ کیا کرتے ہو؟ میں فزکس میں ماسٹر کر رہا ہوں، انکل اور ساتھ ہی شام کے وقت ایک اکیڈمی میں پڑھاتا بھی ہوں۔ آج اتوار تھا، اِسی لیے ابھی گھر تھا وگرنہ تو کبھی کبھی لیٹ بھی ہو جاتا ہوں۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ابو کام کے سلسلے میں زیادہ تر باہر ہی رہتے ہیں اور یوں گھر کے کام کاج پھر مجھ اکیلے کو ہی کرنے پڑتے ہیں۔

خیر زندگی کے ساتھ ساتھ تو پھر یہ سب چلتا ہی رہتا ہے، آپ سنائیں انکل؟ میں اپنا کاروبار کرتا ہوں، جو کہ آئی ٹی سے وابستہ ہے۔ اِن ساری باتوں کے بیچ سونیا خاموش رہی۔ اُس نے کوئی بات نہیں کی بس خاموشی سے کھانا کھاتی رہی اور کھانا بھی کیا بس تین چار نوالے اور پھر خاموش، ارے بیٹا وجاہت یہ سونیا کو کھیت وغیرہ تو دکھا لاؤ، اِس کا بھی ذرا دل بہل جائے گا۔ خالہ نے اگلی صبح ناشتے سے فارغ ہوتے ساتھ ہی مجھے کہا۔

جی خالہ، میں چلا جاتا ہوں، سونیا نے ایک دو بار منع بھی کیا، مگر خالہ کے اصرار کے بعد وہ باہر جانے کے لیے راضی ہوگئی۔ میرے پاس مہران کار تھی۔ وہ دروازہ کھول کر جھٹ سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی اور میں بھی خاموشی سے کار میں بیٹھ کر اسٹارٹ کر کے کھیتوں کی طرف بڑھ گیا، میں بہت خوش تھا۔ وہ پریوں کی ملکہ بالکل میرے پیچھے بیٹھی تھی۔

کیا ہوا جو تھوڑی نک چڑھی تھی، مگر تھی تو خوبصورت نا، اور ویسے بھی جتنی وہ حسین تھی اِتنا غرور تو جچتا بھی تھا اُس پر۔ خیر میں نے پوچھ لیا کہ لگتا ہے کہ آپ کو یہاں آنا اچھا نہیں لگا؟ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں، بس میں ایسے ماحول کی عادی نہیں ہوں نا۔ شام کو ہی جیسے رات ہو جاتی ہے۔ کوئی فینٹیسی نہیں ہے یہاں۔ جبکہ اسلام آباد میں لانگ ڈرائیو، لاؤڈ میوزک اور شام کو پارٹیز میں ناچنا گانا فرینڈز گیدرنگ وغیرہ وغیرہ۔

سو آئی کانٹ افورڈ دی لیونگ سٹائل آف ویلیج۔ ہاں سچ یہ انگلش کے ورڈز جو میں بول رہی ہوں وہ تمہیں سمجھ تو آ رہی ہے نا؟ وہ چہکی، جی ماسٹر کر رہا ہوں۔ اتنی انگلش تو آتی ہی ہوگی، ہم گاؤں کے لوگ اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہوتے، جتنا یہ بڑے شہروں والے لوگ ہمیں سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ میں تھوڑا غصیلا ہوگیا تھا۔ اَرے کول بھئی، وہی پینڈو جذباتی پن، ریلیکس، ایزی مین، اب نہیں کچھ کہتی۔

تب تک ہمارے زمینیں آ گئیں۔ گاڑی روک کر باہر اُسے ٹیوب ویل دکھایا، جو منوں کے حساب سے پانی اُگل رہا تھا۔ پھر کھیتوں کے متعلق کچھ باتیں کیں۔ وہاں چند منٹس گزارنے کے بعد اُسے نہر دکھانے لے گیا اور آخر میں دریا پر چلے گئے۔ وہاں مچھلی کے کباب کھا کے گھر لوٹ آئے، وہ کسی حد تک مجھ سے فرینک ہوگئی تھی۔ پھر اکثر ہم اکٹھے رہنے لگے۔ بھینس کا دودھ نکالتے وقت بھی وہ میرے ساتھ رہتی۔

امی کو گوبر کا کام کرتے دیکھتی۔ جھاڑو صفائی اور نلکے کے پانی سے کپڑے کیسے دھوتے ہیں وہ سارا دیکھتی۔ وقت پر کھول کر اُڑتا رہا اور مہینہ بیت گیا۔ ہم دونوں کب ایک دوسرے کے قریب آئے پتہ ہی نہ چلا۔ وہ اکثر مجھے کہتی کہ تم ہماری شادی کے لیے اپنی امی سے بات کرو نا اور میں ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے بات ٹال دیتا۔ لیکن جب اُس کی ضد بڑھی تو میں نے اُسے صاف لفظوں میں انکار کر دیا۔

آخر کیوں وجاہت؟ کیا میں اب حسن کی ملکہ نہیں رہی، میں وہی ہوں نا جس کی خوبصورتی کے تم قصیدے پڑھتے تھے اور اب دسترس میں آئی ہوں تو دھتکار رہے ہو مجھے، کس قدر گھٹیا آدمی ہو تم۔ محبت کر کے مکر رہے ہو۔ پیچھا چھڑوا رہے ہو، ہاں پیچھا چھڑوا رہا ہوں، کیونکہ تم اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس کی ہائی فائی لڑکی ہو۔ جبکہ میں یہاں اِس گاؤں کا گوار لڑکا۔

تم یہاں کے اِس گھٹن زدہ ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاؤ گی۔ تم جلد ہی اُکتا کر چھوڑ جاؤ گی مجھے۔ بس اِسی لیے میں نے یہ پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہے کہ میں تم سے شادی نہیں کروں گا۔ سونیا نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ لیے کہ پلیز وجاہت مجھے اپنا لو۔ میں گوبر اٹھا لوں گی۔ جھاڑو دے لوں گی۔ چارہ کاٹ کے لے آیا کروں گی۔ بھینس کا دودھ نکال لوں گی، مگر خدا کے لیے میری جھولی میں اپنے ہجر کے یہ انگارے مت ڈالو۔

میں تمہارے بغیر مر جاؤں گی وجاہت پلیز، مگر میں نہ مانا کیونکہ میں ایک پریکٹیکل انسان تھا۔ مجھے محبت تو ہوگئی تھی، مگر ہم دونوں کی پرورش اور زندگی گزارنے کا ماحول ایک دوسرے سے پوری طرح سے مختلف تھا۔ سو اِسی لیے میں نے اُسے اپنانے سے منع کر دیا اور اگلے ہی دن وہ لوگ اِسلام آباد واپس لوٹ گئے۔ اِس بات کو سات سال گزر گئے۔ ہم دونوں کی شادیاں ہوگئیں، نہ وہ میری شادی پر آئی اور نہ ہی میں اُس کی شادی پر گیا۔

ایک دن خبر ملی کہ سونیا کا بیٹا سانپ کے ڈسنے سے انتقال کر گیا ہے۔ مجھے سن کر بہت دکھ ہوا اور امی نے کہا کہ تیار ہو جاؤ ہمیں دو گھنٹے تک نکلنا ہے۔ میں اور امی گاڑی میں بیٹھ کر نکل گئے۔ امی نے بتایا کہ وہ کھیتوں میں کہیں کھیل رہا تھا، بیچارہ کہ سانپ نے اُسے ڈس لیا۔ میں کہیں خیالوں میں کھویا امی کی باتوں کے جواب میں بس ہوں ہاں ہی کرتا رہا۔

اِنہیں خیالوں کے بھنور میں غوطے کھاتا سونیا کا سسرالی گھر آگیا۔ جب ہوش آیا تو دیکھا کہ یہ تو کچے گھروں پر مشتمل کوئی گاؤں ہے۔ حیرانگی مزید سوا سیر ہوگئی کہ کیا سونیا کی شادی گاؤں میں ہوئی ہے۔ میں جب گھر میں داخل ہوا تو سونیا بھینسوں کا گوبر پھایا سے ایک طرف کر رہی تھی۔ اور میرے دماغ میں پٹاخے چلنے لگے۔ سونیا سے ہوئی آخری ملاقات کی باتوں کا شور نسوں کو پھاڑنے لگا۔

میں گوبر اٹھا لوں گی

میں جھاڑو دے لوں

مجھ سے شادی کر لو

مجھے یوں مت دھتکارو

میں گوبر اٹھا لوں گی

میں جھاڑو دے لوں گی

ختم شد۔

Check Also

Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya

By Mubashir Ali Zaidi