Meri Muhabbat Ko Aag Lag Gayi
میری محبت کو آگ لگ گئی
عورت کو اپنے زیور، سادھو کو اپنی تپسیا اور کسان کو اپنی تیار فصل پر بڑا ناز ہوتا ہے۔ کسان جب جب اپنی تیار فصل کو دیکھتا ہے تو جھوم اُٹھتا ہے، خوش ہوتا ہے۔ لیکن جہاں خوشی کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی وہیں نقصان ہو جانے کا ڈر بھی سپولیے کی طرح دل میں بیٹھ جاتا ہے۔
گندم کی وہ فصل جو پک کر تیار کھڑی ہو اور اچانک اُسے آگ لگ جائے تو کسان کی تڑپ کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اُس کے ہونے والے نقصان کی بھرپائی کا تخمینہ صرف کسان کے دماغ میں ہی چل رہا ہوتا ہے۔ آگ دیکھنے والے باقی لوگ آگ بجھانے میں کسی حد تک مدد یا تسلی اور دلاسے تو دے سکتے ہیں مگر فصل کے جل جانے کا دکھ صرف کسان جھیلتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ آگ، اُس کی فصل کے ساتھ ساتھ اُس کے کلیجے کو بھی جلا رہی ہوتی ہے۔
بالکل ویسے ہی میری محبت کی تیار فصل کو اچانک تمہاری بیوفائی کی آگ نے اپنی لپیٹ میں کر لیا۔ تمہارے ہجر کی آگ کے بھڑکتے شعلوں نے بڑی بےرحمی سے اِس کھڑی فصل کو جلا کے خاکستر کر دیا۔ اور میں کسان کی طرح بےبس اپنی آنکھوں سے اپنی ہی بربادی کا تماشا دیکھتا رہا۔ آس پاس کے لوگ چاہ کر بھی میری کوئی مدد نہ کر سکے۔ میری محبت کو آگ لگ گئی اور میں ہاتھ مسلتا رہ گیا۔ میرے اِس نقصان کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکا۔ میں تمہیں کوئی بد دعا تو نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے تم سے بے انتہاء محبت ہے لیکن زبان بددعا نہ بھی دے کبھی کبھار جذبات بددعا بن جایا کرتے ہیں۔ اور جلتے، سلگتے جذباتوں کی بددعا، زبان سے دی گئی بددعا سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوا کرتی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ میرے جذباتوں نے تمہیں جھولی اُٹھا اُٹھا کر بد دعائیں دے ڈالیں ہیں۔ اب اگر مکافات کا پہیہ چل گیا تو خُدارا مجھے مورودِ الزام نہ ٹھہرانا۔ کیونکہ اِس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں تو بےبس تھا اور بےبس انسان خاموش ہوا کرتا ہے اور خاموشیاں صرف خدا سنتا ہے اور جب خدا سنتا ہے تو وہ انصاف بھی کر دیا کرتا ہے۔ اور اگر انصاف ہوا تو تمہاری محبت کی بھی تیار کھڑی فصل کو آگ لگے گی اور تم بےبس، چیختی چنگھاڑی رہوگی مگر آگ تب تک نہیں رکے گی جب تک سب کچھ جل کر بھسم نہیں ہو جائے گا۔ کیونکہ محبت کی فصل کو آگ لگا کر نکلو تو اپنی فصل کو بھی آگ لگ جایا کرتی ہے۔