Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Meri Maa Mar Gayi Hai

Meri Maa Mar Gayi Hai

میری ماں مر گئی ہے

جاڑے کا موسم نسوں تک کو یخ کرنے میں لگا تھا۔ دھند اور ٹھنڈ بدن کو سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ ہسپتال کے ایمرجنسی دروازے کے پاس ہی کوئی سات آٹھ سال کا بچہ شاید اپنے کسی رشتے دار یا والد کے پاس بیٹھا تھا۔ والد لیٹا ہوا تھا۔ ایک بڑی چادر میں لپٹا شاید سو رہا تھا۔ میں سرسری سا دیکھ کر آگے بڑھ گیا۔ مجھے وہاں ایک دوست کے بڑے بھائی کی عیادت کرنا تھی۔

میں اُس وارڈ میں کافی دیر بیٹھا رہا۔ پھر دوست نے کہا کہ چلو کینٹین چل کر چائے پیتے ہیں۔ ہم جب باہر نکلے تو میری نظر پھر اُس بچے پر پڑی۔ وہ ٹھٹھر رہا تھا۔ چیرتی سردی اُس کے خون کو ٹھنڈا کر رہی تھی لیکن جانے کیوں اُس کے چہرے پہ ایک عجیب قسم کی سفاکیت تھی۔ وہ شاید کوئی جنگ جیت چکا تھا یا سب کچھ ہارنے کے بعد خود کو وقت کے دھارے کے حوالے کر چکا تھا۔ بہرحال کچھ ایسا ضرور تھا جس کی وجہ سے اُس کا چہرہ ہنوز سنجیدگی سے بھرپور تھا۔

ہم کینٹین چلے گئے، وہاں چائے پی کر جب فری ہوئے تو جانے کیا سوچ کر میں نے ایک کپ چائے پیک کروا لی اور ساتھ میں دو سینڈوچ لے لیے۔ واپسی پر جب اُس بچے کے پاس سے گزر ہوا تو میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اُس بچے کو سلام کیا۔ اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے چائے اور سینڈوچ کے لفافے آگے کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک چائے سینڈوچ آپ کے لیے اور ایک سینڈوچ جو سو رہا ہے اُس کے لیے۔ جب اُٹھ جائے تو اِنہیں کھانے کے لیے دے دینا۔ اور آپ اِتنی سردی میں یہاں کیوں بیٹھے ہیں، کسی برآمدے وغیرہ میں چلے جائیں یا وہ سامنے کینٹن کی چھت تلے لیٹ جائیں۔

لڑکے نے پہلی دفعہ نظر اُٹھا کر مجھے دیکھا اور سینڈوچ لیکر کھانے لگا پھر بولا کہ دوسرا سینڈوچ کون کھائے گا؟ میں نے کہا کہ یہ جو سو رہے ہیں تو وہ بولا۔ یہ میری ماں ہیں اور پھر شاید اُس کا ضبط ٹوٹ گیا۔ وہ ہچکیوں کے ساتھ رونے لگا اور ہکلاتے ہوئے بتانے لگا کہ "میری ماں مر گئی ہے"۔

میرا جسم تو جیسے ٹھنڈا پڑ گیا۔ میں نے فوراً اُس بچے کو گلے لگا لیا۔ وہ بہت رونے لگا۔ جیسے کسی کندھے کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ جیسے ہی میسر آیا تو دل کا بوجھ ہلکا کرنے لگ گیا۔ میں نے اُسے کوئی حوصلہ نہیں دیا بس رونے دیا تاکہ ایک ہی بار میں جی بھر کے رو لے۔ اپنے اندر کا سارا دکھ آنکھوں کے راستے باہر نکال لے۔ وہ بہت دیر تک روتا رہا۔ جب کچھ سنبھلا تو بتانے لگا کہ میرا اِس دنیا میں سوائے ماں کے اور کوئی نہیں تھا۔ ابو گاؤں میں ایک ڈکیتی کے دوران چل بسے تھے۔

پھر والدہ اور میں رہ گئے تھے۔ امی پہلے پہل کپڑے وغیرہ سلائی کرکے دو چار پیسے کما لیتی تھیں، پھر اِنہیں فالج نے آ لیا اور یوں میرے ہاتھ کھلونوں سے کھیلنے کی بجائے ریڑھی لگا کر دانے بھننے میں لگ گئے۔ میں نے بہت محنت کرنا شروع کر دی۔ ریڑھی بھی لگاتا اور ساتھ والدہ کی دیکھ بھال بھی کرتا۔ دن گزرتے گئے اور والدہ کا دکھ کسی پیڑ کی طرح پھلنے پھولنے لگا۔ بیماری کی جڑیں پورے جسم میں پھیل گئیں تھیں۔ جب حالت زیادہ بگڑی تو ریڑھی بیچ کر والدہ کو یہاں ہسپتال لیکر آ گیا۔ کچھ پیسے ایک جاننے والے انکل سے بھی لیے تھے لیکن شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔

میری ماں بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ لڑکا پھر زار و قطار رونے لگا۔ میں نے اِس بار حوصلہ دیا اور آنسو صاف کرنے لگا۔ سمجھانے لگا کہ یہی اِس سفاک دنیا کی روایت ہے۔ سب نے چلے جانا ہے۔ تم بےفکر رہو۔ اللہ بہتر کرے گا۔

میرے پاس اِتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں ماں کی میت کو اپنے گاؤں کے قبرستان تک لیجا سکوں۔ جنازہ پڑھا کر کفن دفن کا بندوبست کر سکوں؟ بس اِسی لیے میت کو یہیں لیکر بیٹھا ہوں کہ کیا کروں؟ یہ غربت تو ہم جیسوں سے سارے حق ہی چھین لیتی ہے۔ کیا زندگی کیا موت۔ ہم تو کفن دفن تک کے محتاج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ میں ماں کے بغیر کیا کروں گا؟ کہاں جاؤں گا؟ وہ پھر آنکھیں بھگونے لگ گیا تھا۔

میں نے کہا، پریشان مت ہو میں کوئی حل سوچتا ہوں۔ میں نے اپنے اُسی دوست کو اُس لڑکے کے پاس رُکنے کا کہا اور ایمبولینس لینے چلا گیا۔ واپس آ کر لڑکے اور میت کو لیکر اُس کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں سارا بندوبست کروایا اور پھر وہاں سے فارغ ہونے کے بعد اُس بچے کو ایک جاننے والے کے پاس چھوڑ دیا جسے اپنے گھر کی دیکھ بھال کے لیے ایک ایسے ہی لڑکے کی ضرورت تھی۔

زندگی بڑی بھیانک ہے۔ ہم سے وہ وہ کچھ چھین لیتی ہے کہ جس کے بغیر جینا عذاب لگتا ہے۔ ایسے ایسے رشتے ہم سے دور لیجاتی ہے کہ جن کے بنا نیند نہیں آتی۔ لیکن کیا کریں یہ وہ رسم ہے کہ جو رہتی دنیا تک قائم رہنی ہے۔ موت آہستہ آہستہ سب کو نگل جائے گی اور اِن سب چیزوں کے باوجود ہمیں جینا پڑے گا۔

Check Also

Tasawuf, Roohaniyat Aur Sufi

By Amir Khakwani