Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Mere Liye Mar Chuki Ho

Mere Liye Mar Chuki Ho

میرے لیے مر چکی ہو

روبینہ ٹیکسٹائل کے دفتر میں کام کرتی تھی۔ وہ شادی شدہ تھی اور اُس کے دو بچے تھے۔ روبینہ بےحد دلکش تھی، سرخ و سفید رنگت اور پیارے نین نقش کے ساتھ وہ انتہائی خوبصورت لگتی تھی۔ دفتر میں سب ہی اُس کی تعریفیں کرتے تھے۔ روبینہ کا شوہر بھی کسی سے کم نہیں تھا۔ دونوں میاں بیوی ہی خوبصورت تھے مگر مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔

روبینہ کے کان ہر وقت اُس کی تعریف سنتے رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ پانی کا ایک قطرہ بھی اگر تسلسل کے ساتھ پڑتا رہے تو پتھر پہ بھی نشان چھوڑ جاتا ہے روبینہ تو پھر ایک جیتی جاگتی انسان تھی۔ جذبات اور خواہشات کے ساتھ سانسیں لیتی ایک جان۔ خوبصورتی کی بےجا تعریف اُس کے اندر کچھ تبدیلیاں لانا شروع ہوگئی تھی۔

اُس کا تبدیل ہوتا رویہ شوہر محسوس کرنے لگا تھا مگر خاموش تھا۔ بچوں کی شکلیں اُس کی مردانگی اور غیرت کو سُلا دیتی تھیں۔ وہ چپ رہنے کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔ روبینہ اب اکثر دیر سے گھر آتی تھی۔ آفس کے بعد پارٹیز، دعوتیں، اور فنکشنز میں آنا جانا اُس کا معمول بن چکا تھا۔

روبینہ کو اب یہ لگنے لگا تھا کہ وہ اپنے غریب شوہر کے لیے نہیں بنی۔ وہ چھوٹا سا گھر اُس کے رہنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ خوبصورت ہے اور محلوں میں رہنے کے لیے پیدا ہوئی ہے ناکہ غربت کے چھت تلے ساری عمر سسکیاں لیتے گزارنے کے لیے۔ اُس کے خواب پَر پھیلائے اُسے بہت اوپر اُڑانے لگے تھے اور وہ بھولنے لگی تھی کہ پاؤں زمین سے جُڑے رہیں تو انسان ٹھیک رہتا ہے ورنہ منہ کے بَل گرنا مقدر بن جاتا ہے۔

ایک دن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ روبینہ کسی چاہنے والے کے ساتھ بھاگ گئی۔ شوہر کو معلوم ہوا تو اسے زیادہ حیرانگی نہ ہوئی کیونکہ وہ اِس دن کے لیے پہلے سے ہی تیار تھا۔ وہ چپ رہا کیونکہ اُسے اپنے بچے عزیز تھے لیکن وہ ایسا ضرور سوچتا تھا کہ یہ کیسی ماں ہے جسے اپنے بچوں تک کا کوئی احساس نہیں ہے؟ ایک ماں اپنے بچوں کو کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہے؟ مگر ایسا ہو چکا تھا۔ ایک ماں بچوں کو چھوڑ کر اپنی زندگی جینے جا چکی تھی۔

روبینہ جس کے عشق میں بھاگی تھی، وہ روبینہ کے ساتھ چند دن گزارنے کے بعد ہی اُسے چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا۔ روبینہ اپنا سب کچھ کھو چکی تھی۔ عزت، مان، وقار اور بھروسہ جو کہ اُس کا شوہر اُسے دیتا تھا۔ گھر، اور رشتہ داروں کی نظر میں وہ الگ بدکردار ٹھہری تھی۔ وہ اپنے ماتھے پر وہ کلنک لگا بیٹھی تھی جو ساری زندگی قسمیں کھا کھا کر بھی دھوتی رہتی تب بھی نہیں مِٹنا تھا۔

وہ جیسے گئی تھی ویسے ہی واپس آ گئی۔ شوہر نے اُسے کچھ نہ کہا، بچوں کے لیے خاموش ہوگیا۔ روبینہ معافیاں مانگتی لیکن اُس کا شوہر کے دل پہ اب کوئی اثر نہ ہوتا۔ اُس نے روبینہ سے یہ کہہ دیا تھا کہ میں بچوں کی وجہ سے سب سہہ گیا ہوں، چپ ہوگیا ہوں مگر ایک بات یاد رکھنا، تم میرے دل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُتر چکی ہو۔ تم کچھ بھی کر لو مگر دوبارہ میرا اعتبار نہیں جیت سکتی۔ ہمارے بیچ بھرم، مان اور اعتماد کا رشتہ اب کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔

یہ تمہارے بچوں کا گھر ہے، یہاں رہو، جو دل کرتا ہے کرو مگر تم میرے لیے مر چکی ہو۔ میں چاہ کر بھی تمہیں معاف نہیں کر سکتا۔ تم نے ایک مرد کی وفا اور غیرت کو زخمی کیا ہے۔ پیارا تو میں بھی تھا، بیوفائی میں بھی کر سکتا تھا مگر نہیں کی۔ غریب ہیں تو کیا ہوا؟ پیسہ تو آنی جانی چیز ہے، میں غریب ہوں تو امیر بھی ہو سکتا ہوں۔ پیسہ میرے پاس بھی آ سکتا ہے مگر وہ وفا ہی کیا جو مطلب پہ نبھائی جائے، جو کسی غرض پہ ٹِکی رہے۔

روبینہ تم بہت پیاری ہو، مگر میرے لیے مر چکی ہو۔

نوٹ: یہ ایک سچی کہانی ہے۔

Check Also

Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer

By Asif Masood