Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Maiyat Ghar Khana

Maiyat Ghar Khana

میّت گھر کھانا

ہمارے معاشرے کو لگنے والے کئی زخم ناسور بن چکے ہیں۔ جن کا علاج ممکن نہیں رہا۔ وہ معاشرے کے جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر ہونے والے نقصان کے ازالوں کی بھرپائی نہیں ہو سکے گی۔ ہم سے جب کوئی ہمارا، جان سے پیارا فوت ہو جاتا ہے تو دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ ہم تخیلاتی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں اندھیرے کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔

ہم صدا کے بےصبرے ہو جاتے ہیں اور آنسوؤں کی مسلسل بہتی دھاریں بھی ہمارے اندر کے اُبلتے لاوے کو ٹھنڈا نہیں کر پاتیں۔ کسی کے چھوڑ جانے کا دکھ کسی بھاری پتھر کی طرح سینے پہ پڑا محسوس ہوتا ہے۔ گھر کی خواتین، مرد بچے سب ہی افسردہ ہوتے ہیں۔ وہ ابھی جانے والے کے دکھ میں ہی ہوتے ہیں کہ ایک اور امتحان اُنہیں آوازیں دے رہا ہوتا ہے۔

ابھی اِس سانحے کو ہوئے چند گھنٹے نہیں گزرے ہوتے کہ لوگ آ جاتے ہیں مثالیں دینے، حوصلہ دینے کہ دیکھو مرنے والے کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا، صبر کرو اور اُٹھ کے کھانے پینے کے بندوبست میں لگ جاؤ۔ جن کا اپنا کوئی مرا ہوتا ہے، وہی خواتین سرخ بلکتی آنکھوں کے ساتھ کھانے پلانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ مرنے والے کے بیٹے، بھائی، باپ سب ہی تنبو کناتیں لگانے میں جُت جاتے ہیں۔

کوئی بازار گوشت لینے چلا جاتا ہے۔ کوئی مرچ مصالحے لینے تو کوئی نائی کو بلانے تاکہ میت کے گھر آنے والوں کو کھانا کھلایا جا سکے۔ رونے والوں کی آوازوں سے زیادہ دیگ میں چلنے والے کڑچھوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ ایک طرف قبر کی تیاری ہو رہی ہوتی ہے تو دوسری طرف کھانے کے لیے برتن لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ حوصلہ دینے کی آوازیں کم جبکہ گوشت مصالحہ پھڑ کے لاؤ کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔

جنہیں رونے کے لیے، حوصلوں کے لیے کندھوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ دوسروں کو مرغے کی ٹانگ والی پلیٹ پکڑا رہے ہوتے ہیں۔ پھر تماشا سجتا ہے اور آئے ہوئے تمام مہمان کھانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جن کو یہ کہنا چاہیے کہ کہ بیٹا، دھی، بہن حوصلہ کرو، ہم تمہارے دُکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ وہ لڑکوں کو آوازیں دے کر لیگ پیس منگوا رہے ہوتے ہیں۔

یہ چہ مگوئیاں بھی دیواریں سننے لگتی ہیں کہ مرنے والا تو مر ہی گیا تھا، تین چار کلو گوشت مزید منگوا کے چاولوں یا سالن میں ڈال لیتے کیا موت پڑ جانی تھی۔ یا یہ کہ چاول کچے رہ گئے تھے۔ افسوس کرنے کی بجائے یہ پوچھا جاتا ہے کہ فلاں نائی کو بلوانا چاہیے تھا، ناں یہ والا نائی تو کھانا ٹھیک اور مزیدار نہیں بناتا۔ کل دوبارہ آئیں گے ان شاءاللہ، حوصلہ رکھنا، صبر کرنا، یہ نہیں کہا جاتا۔

بلکہ یہ پوچھا جاتا ہے کہ کل کی روٹی کون دے رہا ہے اور مینیو کیا ہوگا؟ رونے والوں کی بھیگتی آنکھیں بھی کسی کے مردہ ضمیر پر بےہوش پڑی غیرت کو نہیں جگا پاتیں۔ آنکھیں خشک نہیں ہوئی ہوتیں کہ لہجے خشک ہو جاتے ہیں۔ رشتے اپنا اصلی رنگ دکھانے لگتے ہیں۔ کوئی دلاسے نہیں دیتا، گلے نہیں لگتا بلکہ یہ پوچھتا ہے کہ روٹی پوری تو آ جائے گی ناں۔

مجھے یاد ہے کہ جب میرے ابو کی وفات ہوئی تھی تو ایک کزن میرے پاس چل کر آئی تھی اور کہا تھا کہ اظہر وہ لڑکے میرے سسرالیوں کو صرف شوربہ دے رہے ہیں، جبکہ بوٹیاں کسی اور فیمیلیز کو مہیا کر رہے ہیں۔ ہائے یہ دنیاداری اور یہ مروت میں نے روتی آنکھوں سے اُن لڑکوں کو پاس بلا کر کہا تھا کہ فلاں لوگوں تک بوٹیاں پہنچا دو پلیز یہ کیسی رسمیں ہیں۔

جو خون چوس رہی ہیں، جو سگے رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے پہ تُلی ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں۔ ؐ جن کی بھوک ہی نہیں مٹتی، جو میت نہیں دیکھتے، جنہیں کسی کا افسردہ چہرہ نظر نہیں آتا۔ انسانی رویوں کی پستی کی انتہاء اور کیا ہوگی؟ اس سے غلیظ کھانا(Eating) اور کیا ہو سکتا ہے۔ اگر میت ہمارے مردہ ضمیروں کو جگانے میں ناکام ہو رہی ہے تو پھر دنیا کی کوئی چیز بھی ہمیں شعور سے آگاہ نہیں کر سکتی۔

اور یاد رکھیں کہ ایسی مردہ رسمیں معاشروں کی قبروں پہ مٹی ڈالنے کا کام کرتی ہیں۔

Check Also

Biometric Aik Azab

By Umar Khan Jozvi