Thursday, 21 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Lafzon Ki Thapki Ka Jadu

Lafzon Ki Thapki Ka Jadu

لفظوں کی تھپکی کا جادو

مجھے یاد ہے، بچپن میں امی ابو جب بھی کہیں باہر سے واپس آیا کرتے تو ان میں سے کوئی ایک لازمی اپنی ٹانگیں دبانے کا کہا کرتا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ اپنی ٹانگیں یا پاؤں اتنا کیوں دبواتے ہیں۔

گھر میں ویسے بھی کبھی کبھی ٹانگیں دبانے کا حکم نامہ جاری ہو جاتا اور وجہ بتائی جاتی کہ بس گھر کے کام کرکے تھکاوٹ ہوگئی ہے۔

ایک دفعہ میں تین کلو میٹر کا سفر پیدل چل کر گھر آیا تو میرا ایک چھوٹا کزن گھر آیا ہوا تھا، میں نے اسے کہا کہ یار میری ٹانگیں تو دبا دو۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے بھائی اور وہ شروع ہوگیا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ اس چیز میں کتنا سکون ہے۔ وہ جیسے جیسے دباتا جاتا مجھے راحت ملتی جاتی۔ تبھی مجھے سمجھ میں آیا کہ امی ابو پاؤں دبانے کو کیوں کہتے ہیں۔ یہ چیز آپ کو بہت سکون دیتی ہے۔

بالکل اسی طرح کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ ہم ذہنی طور پر سوچوں کے راستے پر چلتے چلتے بڑے تھک جاتے ہیں اور ہمیں تھپکی، اور حوصلے کی دباوٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی ہمارے خیالوں کو بھی جسم کی طرح کسی اپنے کی تسلی اور لفظوں کی پوروں کے لمس کی ضرورت پڑ جاتی ہے تاکہ ذہنی سکون مل سکے۔

جب کوئی پریشان دکھائی دے تو لفظوں کی تھپکی کسی اچھی دوائی کی طرح کام کرتی ہے جس کا اثر بھی جلدی ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دیے گئے حوصلے ہی تو ہوتے ہیں کہ انسان زندگی کی تلخیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ، ہے ہمت تو آؤ لڑو۔ میں ڈرنے والا نہیں ہوں میرے ساتھ میرے دوست، بھائی اور میرے سب چاہنے والے کھڑے ہیں۔

جیسے ٹانگیں دبانے سے سکون ملنے لگتا ہے ناں ویسے ہی ہمارے الفاظ بھی تب ہاتھوں کا کام کرتے ہیں جب ہم کسی کو کوئی دلاسہ یا تسلی دینے لگتے ہیں، اسے یہ باور کرواتے ہیں کہ زندگی کی اس کٹھن راہوں پر تم اکیلے نہیں ہو۔ ہمارے لفظوں کے ہاتھ، ذہنی تھکاوٹ کی پھیلی لمبی ٹانگوں کو دبانے لگتے ہیں جس سے اگلا انسان ذہنی سکون کی حسین وادیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنی تکلیفوں سے نکل آتا ہے۔ وہ اچھا ہونے لگتا ہے۔

بلاشبہ کسی انسان کی تکلیف کو دور کرنے سے بڑی نیکی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ اِسی لیے ہمیں اپنے ارد گرد نظر رکھنی چاہیے کیونکہ آج کے دور میں جسمانی لحاظ سے نہ سہی، ذہنی طور پر سب بھاگ ہی رہے ہیں، سوچوں کے سمندر کھلے پڑے ہیں، بڑی بڑی لہریں اٹھتی ہیں شور مچاتی ہیں۔ اور کسی کے اندر کے شور کو ہماری قربت اور دی گئی محبت ہی خاموش کر سکتی ہے۔ تو آؤ پھر چلیں اور لفظوں کی تھپکی کا جادو جگانا شروع کریں۔

Check Also

Buton Se Tujhko Umeedain, Khuda Se Na Umeedi

By Tayeba Zia