Kya Bahu Ghar Ka Fard Hoti Hai?
کیا بہو گھر کا فرد ہوتی ہے؟
ایک ایسا سوال جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر ہے تو صرف جواب ہے، لیکن عمل نہیں ہے۔ کہنے کو تو یہ معاشرہ عورت کا معاشرہ ہے مگر نہیں، سب جھوٹ ہے۔ ایک بہو گھر کا فرد کسی صورت نہیں ہو سکتی۔
بہو کو بڑی خوشیوں اور ڈھول باجوں کے ساتھ اپنے گھر لایا جاتا ہے لیکن زیادہ تر پہلی رات ہی گھر کا فرمانبردار بیٹا آنے والی بہو کو گھر کے تمام اصولوں سے آگاہ کر دیتا ہے کہ امی کی عزت میں کمی نہیں آنی چاہیے، ابو صبح جلدی چائے پیتے ہیں، امی کو دیر سے اٹھنا بالکل پسند نہیں ہے۔ برتن اچھے سے صاف ہونے چاہئیں، گھر میں جھاڑو روزانہ دینا ہوتا ہے، بہن غصے کی تھوڑی تیز ہے تو اُس کی باتوں کو دل پہ نہیں لینا۔
گھر کا نیک بیٹا یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ اپنی امی کی بےعزتی کسی صورت بھی برداشت نہیں کرے گا۔ یعنی یہ سب کیا ہے؟
بہو اپنے گھر آئی ہے یا کسی آرمی کیمپ میں گئی ہے؟ اتنے سخت اصول، ایسے کرخت لوگ کہ خدا کی پناہ۔
اگر تو بہو گھر کا فرد ہے تو کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اُسے کسی نے پوچھا ہو کہ بیٹا تمہیں کیا کیا پسند ہے اور کس بات سے تمہیں چِڑ ہے۔ ایسی کون سی باتیں ہیں جو تمہارے مزاج کی نہیں ہیں؟
کیا بہو جو نام نہاد گھر کا فرد بھی ہے کیا وہ اپنی مرضی سے اپنے ہی شوہر کے ساتھ باہر گھومنے جا سکتی ہے؟ کیا وہ اپنی مرضی سے گھر میں کوئی ڈِش بنا سکتی ہے۔ مرضی کی ڈریسنگ یا کچھ بھی جو اُس کا دل چاہے۔ یقیناً نہیں۔ تو پھر کیوں زمانے کے آگے یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ بہو گھر کا فرد ہوتی ہے؟
اب آتے ہیں بہو کے مسائل کے طرف۔ اگر بہو کو اپنے سسرالی گھر میں مسائل کا سامنا ہے تو اِس کی زیادہ تر وجہ صرف عورت ہے یعنی کہ اُس کی ساس اور نند بھاوج وغیرہ۔
تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کی تکلیف اور مسائل کی وجہ زیادہ تر دوسری عورت ہے ہوتی ہے نہ کہ مرد۔
نوٹ۔ عورت نے بس دوسری عورت کا وجود قبول کرنا ہے اور سارے رشتے اپنی عزت و تکریم خود پا لیں گے۔