Koi Khali Jeb Wala Baap Ho, Khuda Na Kare
کوئی خالی جیب والا باپ ہو، خدا نہ کرے
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس عمر میں یا ابھی میرے دل کے قریب کون ہے یا میں کس سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں تو میرے منہ سے فوراً میری بیٹی کا نام نکلے گا کہ "انابیہ"۔
جب میری شادی ہوئی تو میں نے بہت دعائیں کیں کہ اے اللہ مجھے پہلی اولاد بیٹی دینا اور اللہ نے میری جھولی کو چاند جیسی بیٹی سے بھر دیا۔ انابیہ وہ وجود ہے کہ جس کے لیے میں گالیاں کھا سکتا ہوں۔ کسی کے بھی پاؤں پڑ سکتا ہوں۔ منتیں کر سکتا ہوں یعنی اگر مجھے خود کو میری بیٹی کے لیے کسی کے آگے نیچا دکھانا پڑے یا جھکنا پڑے تو میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ یہ مجھے اس قدر پیاری ہے کہ لفظوں میں بتا نہیں سکتا۔
انابیہ نے کہا کہ پاپا مجھے "مَتھلی" (مچھلی) کھانی ہے اور جب بازار جانے لگا تو انابیہ بھی ساتھ ہو لی، ویسے بھی جب باہر جانے لگتا ہوں وہ میرے ساتھ ہی باہر جاتی ہے۔ اُس کی مما نے اُس کو دو تین گرم سویٹر، جرابیں، اور سر پہ ٹوپی وغیرہ کروا دی تاکہ ٹھنڈ سے بچت ہو سکے۔
ہم باپ بیٹی جب مچھلی کی ریڑھی پر پہنچے تو دکاندار کسی گاہک کے ساتھ بحث کرنے میں مصروف تھا۔ گاہک کو دیکھا تو وہ میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ تھا، کوئی خاص سویٹر بھی نہیں پہن رکھا تھا اس نے۔ گاہک نے پھر دکاندار سے کہا کہ مجھے صرف مچھلی کے منہ والا حصہ دے دو مگر ریٹ تھوڑا کم کر دو، اُس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ میری بیٹی آج ضد کر رہی ہے وگرنہ تو میں مچھلی لیتا ہی نہ۔ میں نے جب اُس طرف دیکھا تو بالکل انابیہ کی طرح کی ایک بچی سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی جانے کن انکھیوں سے مچھلی کیطرف دیکھے جا رہی تھی۔
میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ بچی کے سر پہ نہ ٹوپی تھی اور نہ ہی پاؤں میں جرابیں۔ سویٹر بھی بس گزارے لائق تھا۔ میں نے ایک نظر انابیہ کی طرف دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگا لیکن دل اس بچی کی حالت دیکھ کر تکلیف میں چلا گیا۔ میں نے دکاندار سے کہا کہ آپ یہ بڑی والی ثابت مچھلی تول کر اِن صاحب کو دے دیں اور اِن کو جانے دیں۔ پیسے میں دے دوں گا۔ دکاندار نے قدرے حیرت سے مجھے دیکھا جیسے کچھ کہنا چاہ رہا ہو مگر کچھ کہے بغیر ہی مچھلی تول کر اس گاہک کو دے دی۔
وہ گاہک مچھلی لیکر مجھ سے مخاطب ہوا کہ جناب، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ پھر بتانے لگا کہ میں ایک مزدور دیہاڑی دار آدمی ہوں۔ میری بیٹی مجھے بہت عزیز ہے اور آج اس نے بڑے عرصے بعد کوئی فرمائش کی تھی تو میں ٹال نہیں سکا اور مچھلی لینے آ گیا۔ آج دیہاڑی بھی نہیں لگی تھی ورنہ پیسے کم کرنے کی ضد نہ کرتا۔ پھر کہنے لگا کہ میں سفید پوش خود دار آدمی ہوں۔ آپ مجھے اپنا نمبر دے دیں میں ایک دو دن تک آپ کو پیسے واپس کر دوں گا۔
میں نے کہا کہ نہیں جناب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بھی ایک باپ ہوں اور دھیاں تو ویسے بھی سب کی سانجھی ہوتی ہیں تو بس اِسی لیے آپ بےفکر ہو کر یہ مچھلی لے جائیں لیکن ایک چیز میں بدلے میں ضرور لوں گا اور وہ یہ کہ میرے لیے دعا کر دیجیے گا۔ وہ گاہک ڈھیروں دعائیں دے کر اپنے سائیکل کی جانب جب بڑھا تو اُس کی بیٹی کی چمکتی آنکھوں اور مسکراتے چہرے نے میرے بہت اندر تک ایک سکون اور سرشاری بھر دی تھی۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آج ایک باپ اپنی بیٹی کی خواہش کے آگے ہارا نہیں۔ جیب خالی ہونے کے باوجود وہ بیٹی کو اس کی پسند کی چیز دلا سکا۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ اللہ ایسا وقت کبھی کسی باپ پر نہ لے کر آئے کہ اگر کوئی بیٹی فرمائش کرے اور باپ کی جیب خالی ہو۔ اللہ کسی باپ کے ساتھ ایسا نہ کرے۔ اللہ سب بیٹیوں کے سر پر ان کے والد کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے۔ بیٹیاں صرف باپ کی وجہ سے ہی شہزادیاں بنا کرتی ہیں اور باپ، بیٹیوں کی خوشی میں ہی ساری زندگی گزارتے ہیں۔
میں، اپنی بیٹی انابیہ، دلی سکون اور مچھلی کے ساتھ گھر واپس لوٹ آیا۔