Kamyabi Ki Kunji
کامیابی کی کنجی
کہتے ہیں کہ کسی کاروباری انسان کو مسلسل نقصان رہنے لگا۔ اُس کا کاروبار تیزی سے گھاٹے میں جا رہا تھا۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ اُسے اپنا کاروبار بچانے کے لیے ایک بوڑھے تاجر سے پیسے اُدھار لینا پڑے۔
کچھ دن گزرے تو وہ بوڑھا تاجر واپس پیسوں کی مانگ کرنے لگا جبکہ وہ کاروباری انسان ابھی اس حالت میں نہیں تھا کہ قرضہ واپس لوٹا سکے۔ بوڑھے تاجر کی مانگ میں شدت آتی جا رہی تھی مگر کاروباری انسان بےبس اور خاموش تھا۔
اب مزید جب دن گزرے تو بوڑھے اور چالاک تاجر نے ایک شرط رکھ دی کہ وہ اُس کاروباری انسان کا سارا قرضہ معاف کر سکتا ہے اگر وہ اس کی شادی اپنی جوان اور خوبصورت بیٹی سے کر دے۔ کاروباری انسان کو بوڑھے تاجر کی یہ شرط بالکل قبول نہ تھی سو اُس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
بوڑھے تاجر کا اُس کی بیٹی پر دل آ چکا تھا تو جب اُس نے دیکھا کہ یہ حربہ کام نہیں کر رہا تو اُس نے فوراً دوسری چال چلتے ہوئے کہا کہ چلو ایک اور کام کرتے ہیں۔ ہم لوگ دریا کے کنارے چلتے ہیں جہاں کالے اور سفید رنگ کے ڈھیروں پتھر موجود ہیں۔ میں ایک پوٹلی میں دو پتھر ڈالوں گا جن میں سے ایک کالا ہوگا اور دوسرا سفید پھر اِس پوٹلی میں سے تمہاری بیٹی ایک پتھر باہر نکالے گی اور اگر اُس نے سفید پتھر نکالا تو میں سارا قرضہ بھی معاف کر دوں گا اور تمہاری بیٹی سے شادی بھی نہیں کروں گا لیکن اگر پوٹلی سے کالا پتھر نکلا تو قرضہ تو سارا معاف ہو جائے گا مگر مجھ سے شادی کرنا پڑے گی۔
کاروباری انسان گھر گیا اور اپنی بیٹی سے مشورہ کرنے کے بعد بوڑھے تاجر کی یہ شرط مان گیا اور پھر دوسرے ہی دن گاؤں کے کئی معزز لوگوں کے بیچ وہ تینوں بھی دریا کی اُس جگہ پہنچ گئے جہاں پتھر پڑے تھے۔ اُس بوڑھے تاجر نے اپنی جیب سے پوٹلی نکالی اور پھر نیچے بیٹھ کر اُس نے دو پتھر اُٹھا کر پوٹلی میں ڈال دیے۔ جب وہ پتھر ڈال رہا تھا تبھی کاروباری انسان کی بیٹی نے دیکھا کہ بوڑھے تاجر نے دونوں کالے پتھر اٹھائے ہیں۔
مگر لڑکی نے سوچا کہ اگر وہ سب کے سامنے پوٹلی سے پتھر نکالنے سے انکار کرتی ہے تو باپ کو سارا قرضہ اُتارنا پڑے گا اور اگر وہ پوٹلی سے دونوں پتھر باہر نکال کر بوڑھے تاجر کی بےعزتی کرتی ہے تو وہ تاجر آج نہیں تو کل اِس بات کا بدلہ ضرور لے گا۔ اب ان حالات میں اُسے پتھر باہر نکالنا ہی ہوگا تو وہ جلدی سے اِس انداز سے پتھر باہر نکالتی ہے کہ وہ فوراً نیچے گِر جاتا ہے جہاں پہلے سے ہی کالے اور سفید پتھر موجود ہوتے ہیں۔
اب وہ لڑکی بولتی ہے کہ میں معذرت خواہ ہوں کہ جلدی میں پتھر نیچے گِر گیا مگر پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ پوٹلی کے اندر والا پتھر سچ بتانے کے لیے کافی ہے۔ اب ہم پوٹلی کے اندر والا پتھر دیکھتے ہیں۔ اگر وہ سفید ہوا تو جو پتھر نیچے گِرا ہے وہ کالا ہوگا اور اگر پوٹلی کے اندر کالا پتھر موجود ہوا تو پھر نیچے گرنے والا پتھر یقیناً سفید ہوگا اور جب وہ پوٹلی سے پتھر باہر نکالتی ہے تو وہ کالا ہوتا ہے۔
اور یوں سب سمجھ جاتے ہیں کہ نیچے گرنے والا پتھر سفید تھا اور یوں اب قرضہ بھی واپس نہیں کرنا پڑے گا اور نہ ہی شادی ہوگی اور اس طرح شکست کھا کر بوڑھا تاجر ہاتھ مَلتا رہ جاتا ہے۔
اس کہانی میں لڑکی نے یہ ثابت کیا کہ برے اور مشکل حالات میں بھی پرسکون رہ کر اور اپنے دماغ سے کام لیکر پریشانی سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی اکثر ہوتا ہے کہ جب سامنے والا اپنی چالیں چل کر ہمیں بےبس کر دیتا ہے اور ہم تنگ حالات کے سبب اُس کی چالوں میں آ کر نقصان اُٹھا بیٹھتے ہیں۔ پریشانی کو سر پہ چڑھا کر مزید پریشانیوں کو دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح ہماری جلدی بازی اور بوکھلاہٹ پن کا فائدہ پھر ہمارے دشمن کو چلا جاتا ہے اور ہم خالی ہاتھ اپنی قسمت کو کوسنے میں لگ جاتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ حالات جیسے بھی ہو جائیں اُن کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ خود کو ٹھنڈا رکھنا ہے، حالات و واقعات پر ایک نظر ڈالنی ہے، ہر بات کو خوب جانچنا و پرکھنا ہے اور پھر سکون سے اُن کو حل کرکے خود کو پریشانی سے نکال لینا ہے۔ دشمن کی چالوں سے آپ تب ہی محفوظ رہ پاتے ہیں جب آپ اپنے دماغ کو نارمل رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پریشانیاں تو آتی جاتی رہتی ہیں مگر ہمارا کمال تب ہے کہ جب ہم بالکل نارمل اور پرسکون رہ کر آنے والے مسائل کا حل نکالیں اور ہار نہ مانیں۔
کیونکہ آپ کا پراعتماد چہرہ اور ہر چال سے باخبر رہنا ہی آپ کو سامنے والوں کی نظر میں کامیاب بناتا ہے اور جیت آپ کا مقدر ٹھہرتی ہے۔