Kahani Dhallu Ki
کہانی ڈھلو کی
بازار میں میرے ایک دوست کی کپڑوں کی دکان تھی۔ میں روزانہ کالج سے چھٹی کے بعد اُس کی دکان پر لازمی جاتا اور کچھ دیر وہیں بیٹھتا۔ وہاں ایک ڈھلو نامی لڑکا لڈّو بیچنے آتا تھا۔ اُس کے والدین نہیں تھے۔ وہ اکیلا تھا۔ دوست کے ساتھ اُس کی اچھی دعا سلام تھی پھر آہستہ آہستہ میرے ساتھ بھی اُس کی بیٹھک ہونے لگی۔ وہ سادہ، مگر محنتی لڑکا تھا۔ رنگ نہ زیادہ کالا نہ زیادہ سفید، اچھا تھا۔ مونچھ رکھی ہوئی تھی اور شیو کرتا تھا۔
لڈو بیچنا اُس کا پرانا پیشہ تھا۔ وہ صبح صبح جلدی اُٹھ کر اپنا سامان تیار کرتا اور اسکول، کالج کے اوقات تک لڈو تیار کرکے بیچنے نکل جاتا۔ وہ اسکول کالج کے علاوہ بازار میں چل پھر کر بھی بیچتا تھا۔ اُس دور میں بقول اُس کے وہ ایک دن میں ہزار سے پندرہ سو تک منافع کما لیتا تھا اور گاؤں میں اِتنی آمدن سے اچھا خاصا گزارہ ہو جاتا ہے۔
ایک دن کہنے لگا کہ اُستاد، انسان کی جھولی خوشیوں سے زیادہ دکھوں سے بھری ہوتی ہے۔ کسی کی جھولی کو زرا سا چھلکا دو تو دکھ ہی دکھ گِرنے لگتے ہیں۔ میں بڑا حیران ہوا کہ آج اِسے کیا ہوگیا ہے۔ یہ تو ہنستا مسکراتا انسان تھا، یہ اچانک فلاسفر کیوں بن گیا ہے۔ اُس کا چہرہ پوری طرح سے سنجیدگی اوڑھے میرے سامنے تھا۔
کہنے لگا کہ یہ عورت عجیب پہیلی ہے۔ لاکھ بوجھنے کی کوشش کر لو، تب بھی سمجھ میں نہیں آتی۔
تمہیں شاید پتہ نہیں کہ میں شادی شدہ تھا۔
ہیں؟ تمہاری شادی۔۔ وہ بھلا کب ہوئی؟
میں ششدر رہ گیا۔
چار سال پہلے ہوئی تھی۔ وہ دِکھنے میں بڑی اچھی تھی۔ سیرت بھی بھلی مانس تھی۔ کہتی تھی کہ ڈھلو مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ مجھے آگے پڑھنا ہے۔
میں چِٹا اَن پڑھ تھا، اُس کی باتیں مجھے اچھی لگتیں۔ میں نے اُسے پڑھنے کی اجازت دے دی۔ میں مزید محنت کرنے لگا اور روزانہ اُسے الگ سے 500 خرچہ بھی دینا شروع کر دیا۔ سوچتا تھا کہ عورت ذات ہے، سو خرچے ہوتے ہیں۔
وہ میٹرک کے پیپر کی تیاری کرنے لگی۔ شام کو کسی ٹیچر کے گھر ٹیوشن پڑھنے بھی جاتی تھی۔ اچھے دن گزر رہے تھے۔ میں ہر طرح سے اُس کی مدد کر رہا تھا۔ اُسے سپورٹ کر رہا تھا۔ وہ بھی پڑھائی میں خوب محنت کرتی نظر آتی تھی۔
میں ڈھلو کی آنکھوں میں اُمڈتا پانی اور آواز میں پیدا ہوتی لغزش صاف دیکھ سکتا تھا۔ یعنی وہ کسی دکھ میں مبتلا تھا اور دکھ بھی کوئی ناسور جیسا۔
کہنے لگا کہ ایک صبح جب میں لڈو بنانے کے لیے اُٹھا تو میری بیوی بیڈ پر نہیں تھی۔ مجھے لگا شاید واش روم گئی ہوگی۔ میں لڈو بنانے میں مصروف ہوگیا۔ لیکن وہ کہیں نظر نہ آئی۔ مجھے فکر ہونے لگی، میں اُسے پورے گھر میں تلاشنے لگا۔ وہ نہ ملی مگر ہاں اُس کے سرہانے ایک خط ملا۔ خط دیکھ کر میں ڈر گیا۔
پسینے میں بھیگتا وجود لیے سوچنے لگا کہ اللہ نہ کرے، اگر یہ خط وہی ہوا جو میں سوچ رہا ہوں تو کیا کروں گا۔ میں کسی کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہوں گا۔ اور اب یہ خط کسے دکھاؤں؟ جو بھی یہ خط پڑھے گا، میں تو اُس کے سامنے ننگا ہو جاؤں گا۔ میری عزت کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے۔ میں نے چپکے سے خط جیب میں ڈال لیا۔ سارا دن تذبذب کا شکار رہا کہ خط کس سے پڑھواؤں؟ اور دل یہ بھی کہتا کہ شاید وہ لوٹ آئے، کسی کام سے کہیں پاس ہی گئی ہوگی۔ مگر دل کی اُمیدیں ڈھلتے دن کے ساتھ ماند پڑنے لگیں۔ سائے اور وسوسے دونوں بڑھنے لگے۔
دو دن تک میں گھر میں قید رہا اور وجود جیسے چھریوں سے چھلنی ہوتا رہا۔ دل ماننے کو تیار ہی نہ تھا کہ میری بیوی مجھے چھوڑ کر جا چکی ہے۔ وہ خط میں نے چھ مہینوں تک سنبھالے رکھا۔ کسی سے دکھانے کی کبھی ہمت ہی پیدا نہ ہوئی اور چھ مہینوں بعد پھاڑ کے نہر میں بہا دیا۔ آج اِس سانحے کو چار سال گزر چکے ہیں۔ یہ دکھ میری جھولی میں سب سے بڑا ہے۔ اِتنا بڑا کہ میری خوشیوں کو بھی دبائے رکھتا ہے۔
میری پلکیں بھی بھیگ چکی تھیں۔ ڈھلو کا ظرف اور درد واقعی میں بڑا تھا۔ وہ بتانے لگا کہ اُس کے بعد پھر شادی کا خیال کبھی دل میں آیا بھی تو اُس نے بُری طرح سے جھٹک دیا۔ زندگی جینی اگر اِتنی ہی ضروری ہے تو اب اکیلے میں ہی جی لوں گا۔ کسی آسرے، سہارے یا شادی کے متعلق نہیں سوچوں گا۔ پیٹ کی ضرورت یہ دو چار نوالے ہی تو ہیں وہ میں آسانی میں کما لیتا ہوں اور اب اِسی میں خوش ہوں۔
بس کبھی کبھی پرانا دکھ یاد آ جائے تو بوجھل دل کو ہلکا کرنے کا بڑا من کرتا ہے اور آج تمہارے سامنے خود کی اذیت کو کھول کر دل کا وزن کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُمید ہے کہ تم میرے اِس راز کا پردہ رکھو گے۔ اور وہ اپنی ہمت کے آخری کمزور بندھ کے ساتھ میری طرف دیکھنے لگا۔۔
ڈھلو آج تم میری نظر میں اور بھی بڑے ہو گئے ہو۔ میرا مخلص پن اور دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ تمہیں ڈھیروں اَجر دے۔ میں نے ڈھلو کو گلے لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ رونے لگا اور میں نے بھی اُسے نہیں روکا، کیونکہ میں یہی چاہتا تھا کہ وہ اپنے دکھ کو آنسوؤں کے رستے نکال باہر کرے۔ اُسے رونے کے لیے شانہ چاہیے تھا اور میں نے آگے بڑھ کر اُسے وہ موقع دے دیا تھا۔