Jab Koi Mar Jaye
جب کوئی مر جائے
جب کسی کا کوئی مر جائے تو اسے وقتی صبر کی تلقین یا تسلیوں کے بول نہیں چاہیے ہوتے انہیں آپ کا کندھا چاہیے ہوتا ہے۔ جو دنیا میں آیا ہے اُس نے واپس بھی جانا ہے۔ جانا طے ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا۔ بڑے بڑے پیار کرنے والوں کو موت نے ایک دوسرے سے الگ کیا ہے۔ کیا ماں، کیا باپ، بہن یا بھائی سب ایک دوسرے سے جدا ہوتے آ رہے ہیں۔ پیار امر ہے اور یہ ہر خونی رشتے سے بہت زیادہ ہوتا ہے تو جب کوئی جان سے پیارا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑتا ہے تو انسان پہ غشی کے دورے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ ذہن اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کر پاتا کہ کوئی اِس قدر پیارا یوں چھوڑ کر جا سکتا ہے۔
انسان کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیسا لگ رہا ہے، وہ رو کیسے رہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے اُسے یا وہ اوور لگ رہا ہے۔ اسے قریبی رشتے کے کھو جانے کا غم ہوش و ہواس سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اسے آس پاس کی کوئی خبر نہیں رہتی۔ اس کے ذہن میں بس ایک ہی بات گردش کر رہی ہوتی ہے کہ وہ ایک انتہائی قریبی رشتے سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ یعنی وہ رشتہ اب تا عمر اس کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا چکا ہے۔ کسی کے چلے جانے سے کوئی مر نہیں جاتا۔ صبر آ ہی جاتا ہے لیکن وقتی حالت بہت غیر ہو جاتی ہے۔ سب بہت روتے ہیں، اتنا کہ کلیجے پھٹنے کو آ جاتے ہیں۔ دھاڑیں مار مار کے روتے ہیں۔ سینہ دوہتڑ پیٹتے ہیں، چیخیں مارتے ہیں کیونکہ صبر وقتی نہیں آ سکتا۔ اسے آنے میں وقت لگتا ہے۔
جنہوں نے کوئی قریبی رشتہ کھویا ہوتا ہے، انہیں رونے دیا کریں۔ اُس وقت اُن لوگوں کا دماغ حاضر نہیں ہوتا۔ ان کا حل صرف رونا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جی بھر کے رو لینے سے ہی ہلکے ہو سکتے ہیں۔ جب بھی کوئی فوتگی ہوتی ہے تو وہاں بہت سے لوگ رونے والوں کو چپ کروانے لگ جاتے ہیں، صبر کی تلقین کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا دکھ صرف وہی جانتے ہیں اور تب یہ رونا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ آنکھیں خود سمندر بنی ہوتی ہیں۔
بھلا جب ماں مر جائے تو کہنے والوں کے کہنے سے رونا بند ہو سکتا ہے؟ باپ کی میت سامنے پڑی ہو تو کیا صبر آ سکتا ہے؟ کوئی کیسے تب صبر کر سکتا ہے یا اپنا رونا بند کر سکتا ہے۔ مجھے تو ان لوگوں کی سمجھ نہیں آتی جو چپ کروا رہے ہوتے ہیں کہ مت رو صبر کرو۔ تسلیوں کو یہ جملے فوراً ادا کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ انہیں سنبھال کر رکھنا ہوتا ہے اور وقتی ایسے لوگوں کو صرف اپنا کندھا دینا ہوتا ہے جہاں وہ اپنا سر رکھ کر جی بھر کے رو سکیں اور اپنے اندر کا سارا دکھ آپ کے کندھے پہ آنسوؤں کی صورت باہر نکال سکیں۔
جب کسی کا کوئی مر جائے تو اسے وقتی صبر کی تلقین یا تسلیوں کے بول نہیں چاہیے ہوتے انہیں آپ کا کندھا چاہیے ہوتا ہے۔ تو لہٰذا تب فلاسفر بننے کی بجائے ان کے دکھ کے سانجھی بنیں۔ اللہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔