Izzat e Nafs
عزتِ نفس
انسان اپنے تجسس کی وجہ سے جنت سے نکلا تو دنیا میں بھیج دیا گیا۔ انسانی طبیعت میں کئی بدلاؤ شامل کیے گئے۔ کئی طرح کے مزاج میں ڈھالا گیا جن میں غصہ، خوشی کا اظہار، ناراضگی اور عزتِ نفس وغیرہ شامل ہیں۔
عزتِ نفس انسانی وجود کا سب سے اہم جُز مانا جاتا ہے۔ اِسی ایک اہم عنصر کی وجہ سے انسان خود دار بنتا ہے۔ وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ وہ جانتا ہے کہ جیسے سانپ اگر نہ ناچے تو بِین کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے بالکل ویسے ہی انسان سے عزتِ نفس نکال دی جائے تو پیچھے بس خالی بدن کا وزن رہ جاتا ہے۔
عزتِ نفس پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ عزتِ نفس کی موت ساری موت ہوا کرتی ہے۔ برتن ٹوٹ جائے تو اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے اسی طرح انسان کو قیمتی اُس کی خودداری بناتی ہے۔ عزتِ نفس مر جائے تو انسان بھکاری بن جاتا ہے اور مانگنے والے کی جھولی کو بےشک ساری دنیا سے بھر دیا جائے وہ تب بھی مانگنے سے باز نہیں آتا۔
خودداری انسان میں خواہشات کی کمی سے وجود میں آتی ہے۔ ضروریات کو جتنا مٹھی میں رکھا جائے انسان کا بھرم اُتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ جیسے پرہیز آدھا علاج ہوتا ہے ویسے ہی لالچ کی غیر موجودگی عزتِ نفس کو نشوونما دیتی ہے۔ بڑا کرتی ہے۔ کیونکہ حاصل تو بےمعنی ہو جاتا ہے۔ اصل زندگی تو کھوج ہے اور جو مل گیا وہ کھو گیا۔ میسر آنے پر شکرانہ نہ کیا جائے تو سزا کے طور پر بھرے کشکول کو توڑ دیا جاتا ہے اور جب کشکول ہی ٹوٹ جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچا کرتا۔
خودداری مر جائے تو لب کمینی ہنسی سیکھ لیتے ہیں اور پھر دل غیرت سے خالی ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ جیسے سمندر میں شجر نہیں اُگا کرتے ویسے ہی جن دلوں میں عزتِ نفس نہ ہو وہاں غیرت ڈیرے نہیں ڈالا کرتی۔ کوچ کر جایا کرتی ہے۔ عزتِ نفس کو بڑا کرنا اور اِس کی نشوونما کرنا سیکھیں۔ بڑا بننا ہو تو پہلے خودداری کو بڑا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بات اور ذہن نشین کرلیں کہ تاج محل کا شوق ہو تو اپنے لیے خود بنائیں کیونکہ کسی اور کا تاج محل بنانے والے ہاتھ کبھی سلامت نہیں رہتے۔