Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. I Can Sleep When The Wind Blows

I Can Sleep When The Wind Blows

آئی کین سلیپ وین دا ونڈ بلوز

ایک مشہور کہانی ہے کہ کسی گاؤں میں ایک بڑا محنتی کسان رہا کرتا تھا۔ وہ اپنے کام کو لیکر بڑا سنجیدہ اور اصول پسند تھا۔ وہ اپنے کھیتوں کی پرورش اور دیکھ بھال اپنی اولاد کی طرح کیا کرتا تھا۔ وہ کھیتوں کے کسی کام کو لیکر لاپرواہی برتنے کا بالکل عادی نہیں تھا۔ ایک دم چاک و چوبند ہو کر وہ اپنے کھیتوں اور جانوروں کے کام کیا کرتا تھا اور اِسی کام سے وہ اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔

اُس نے بہت محنت کرکے اپنے آس پاس کی مزید زمین بھی خرید لی تھی مگر اب کام بڑھ جانے کی وجہ سے وہ اکیلا اُس طرح کام کرنے میں ناکام ہو رہا تھا کہ جیسے اُس کو عادت تھی۔ اُسے محسوس ہوا کہ اب چونکہ وہ اکیلا یہ کام نہیں سنبھال پا رہا تو کیوں ناں ایک مزدور رکھ لے تاکہ سارے کاموں کو وقت پر کیا جا سکے۔

اُس نے انٹریوز کے لیے چار پانچ لڑکوں کو بلایا، اُن سے کھیتوں اور جانوروں کے متعلق چند سوالات کیے مگر کسی کے جواب سے وہ متاثر نہ ہو سکا۔ اُسے خود جیسا محنتی اور قابل آدمی کسی میں نظر نہ آیا لیکن ایک لڑکے کے جواب نے اُسے ایک موقع دینے پر مجبور کر دیا۔ جب کسان نے اُس لڑکے سے سوال کیا کہ تم کھیتوں کی دیکھ بھال کیسے کرو گے، یا جانوروں کو کیسے سنبھالو گے تو اُس لڑکے نے جواب دیا کہ

I can sleep when the wind blows.

مطلب کہ جب تیز آندھی آئے گی تو میں سو سکتا ہوں، یا میں سو جاؤں گا۔

لڑکے کا یہ جواب کسان کو سمجھ تو نہ آیا مگر اُس نے اِس عجیب و غریب طرح کے جواب کی وجہ سے اُسے کام پر رکھ لیا۔ کچھ دن تک وہ اکٹھے کام کرتے رہے، بیج بوتے رہے، فصلیں کاٹتے رہے اور یوں خوب محنت کے بدلے اچھا پھل بھی ملتا رہا۔

ایک دن کیا ہوا کہ تیز آندھی آ گئی۔ کسان بھاگا بھاگا اُس لڑکے کے کمرے میں گیا اور دیکھا کہ وہ لمبی تان کے سو رہا ہے۔ کسان غصے سے اُسے اٹھانے لگا کہ باہر تیز آندھی چل رہی ہے اور یہ نکما سکون سے سو رہا ہے۔ مگر جب وہ لڑکا نہ اُٹھا تو کسان خود ہی کھیتوں کی جانب بھاگا۔ مگر جب دیکھا تو کھیت پہلے سے ہی مکمل طور پر محفوظ کر لیے گئے تھے، جانوروں کو دیکھا تو وہ محفوظ جگہ پر بندھے ہوئے تھے۔ اِتنے میں وہ لڑکا پیچھے سے آیا اور اُس نے وہی بات دوبارہ کی کہ

I can sleep when the wind blows

بھئی میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جب تیز آندھی آئے گی تو میں سو جاؤں گا۔

اِس کا مطلب یہ ہے کہ برے وقت کے آنے سے پہلے ہی میں پوری طرح تیار رہوں گا اور اِس طرح تیار رہوں گا کہ پریشانی کے وقت بھی میں سکون سے سو گیا تو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ یعنی برے وقت کے آنے سے پہلے ہی تیاری کرکے رکھنی چاہیے۔

برا وقت گِدھ کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے گدھ مردار گوشت کھاتا ہے، بالکل ویسے ہی برا وقت بھی نکمے، سست اور سوئے ہوئے لوگوں پر ہی آتا ہے۔ وہ تیار لوگوں سے کبھی نہیں بِھڑتا۔ برا وقت ہمیشہ مردار لوگوں کا شکار کیا کرتا ہے۔ اس کا ہوشیار اور وقت سے پہلے تیار رہنے والوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ منصوبہ بندی کرنے والوں سے کوفت کھاتا ہے۔ اُن سے دور رہتا ہے مگر ڈھیلے اور لاپرواہ لوگوں کی بوٹیاں تک نوچ ڈالتا ہے۔

اِسی لیے کہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں کئی دُکھ ہمارا خود کا انتخاب ہوتے ہیں۔ کئی پریشانیاں، صرف ہماری اپنی وجہ سے ہماری زندگی میں آتی ہیں۔ برے وقت کو ہم خود آوازیں دے رہے ہوتے ہیں۔ جب ہمارے اندر کی امید مر جاتی ہے تو برا وقت کسی گِدھ کی طرح ہماری مری ہوئی امیدوں کے لوتھڑے کھانے کے لیے آ ٹپکتا ہے۔ جس سے رہی سہی کسریں بھی نکل جاتی ہیں اور ہم نا اُمیدی کی گہری سیاہ وادیوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔

ہمیں خود کو ہمیشہ برے وقت کے لیے تیار رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے، ورنہ نتائج بہت بھیانک بھی ہو سکتے ہیں۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf