Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Hum Waldain Ke Dukh

Hum Waldain Ke Dukh

ہم والدین کے دُکھ

ہر انسان احساسات کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے اپنے اردگرد کی چیزوں کو دیکھتا ہے، پرکھتا ہے اور اُسی مناسبت سے وہ اپنے جینے کی حدوں کا تعین کرتا ہے۔ دکھ سکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور انسانیت کے ناطے ہم ایک دوسروں کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹتے ہیں، غم آدھا کرتے ہیں اور دوسرے انسان کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم دُکھ کی اِس گھڑی میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اُس کے غم کو سمجھتے ہیں، برابر کے شریک ہیں اور حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کے دکھ کو رتی برابر بھی نہیں سمجھ سکتا۔ مثال کے طور پر ایک کنوارہ لڑکا اُس باپ کی اذیت کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا کہ جس کا جوان بیٹا مر گیا ہو یا جس کی بیٹی طلاق کے ساتھ گھر واپس آئی ہو۔

ہم والدین کے دکھ بڑے الگ ہوتے ہیں۔ اِنہیں ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ کل کی بات ہے کہ میں ایک موبائل شاپ سے باہر نکل رہا تھا کہ نظر ساتھ والی دکان کے باہر ایک باپ بیٹے پر پڑ گئی۔ وہ وَن ڈالر شاپ تھی جہاں مختلف اقسام کی چیزیں سستے داموں مل رہی تھیں۔ وہ بچہ کھلونے لینے کی ضد کر رہا تھا جبکہ باپ کہہ رہا تھا کہ کل لے دوں گا، آج پیسے نہیں ہیں۔

بچہ تو بچہ ہوتا ہے، اُسے جمع تفریق یا معاشیات کی بات پلے نہیں پڑتی۔ اُسے کھلونا چاہئیے تو بس چاہئیے ہوتا ہے۔ اُسے عقل نہیں ہوتی کہ باپ کے پاس پیسے نہیں ہیں یا وہ فی الوقت اُس کی مرضی کے کھلونے یا اُس کی خوشی کا سامان خریدنے سے قاصر ہے۔ بچے کو اگر تب کچھ سمجھ میں آ رہا ہوتا ہے تو وہ بس کھلونا ہوتا ہے۔ اِس کے سوا کچھ نہیں۔

میں شادی سے پہلے اگر یہ سب دیکھتا تو یقیناً مجھے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ میں تب باپ نہیں بنا تھا۔ والدین کے احساسات کی پرکھ اور سمجھ والدین بننے کے بعد ہی آتی ہے تو اِسی لیے بچے کا رونا مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا اور باپ کی بےبسی پر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

اللہ جانے کہ یہ کیسا نظام ہے، یہ زندگی کیا ہے؟ یہ دکھ کیوں ہیں اور اگر ہیں بھی تو کب تک رہیں گے؟ کب جان چھوڑیں گے؟ میں جب جب ایسا کچھ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ایسے لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ جن کے دل پتھر اور احساس سے عاری ہوتے ہیں۔ جنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اِس غربت کی کہانیاں ہمارے آس پاس سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں پڑی ہیں اور جن کا کوئی حل نہیں نکل رہا۔

ہم والدین کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ بچے بیمار تو ہم پریشان، بچے فیل تو ہم پریشان، بیٹا بےروزگار تو ہم پریشان، بیٹی کی عمر گزر رہی ہو تو ہم پریشان۔ ہمارے جھولی میں دکھ ہی دکھ ہوتے ہیں۔ ہمارے تین بچوں میں سے اگر کوئی ایک امتحان میں فیل ہو جائے تو ہم خوشی کی بجائے دکھ مناتے ہیں۔ ویسے یوں کہہ لیں کہ والدین کی خوشی کا تعلق سیدھا سیدھا اپنی اولاد سے جُڑا ہوتا ہے۔ جیسی اولاد ہوگی والدین بھی ویسے ہی برتاؤ کریں گے۔ اولاد خوش تو والدین بھی خوش، اولاد پریشان تو ماں باپ بھی پریشان۔

اس کائنات میں دکھ ہی دکھ ہیں لیکن ہم والدین کے دکھ سب سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہماری خوشیاں ہمارے بچوں سے جُڑی ہوتی ہیں۔ اللہ سب والدین کی اولادوں کو نیک بنائے۔

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari