Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Hijr Zadi

Hijr Zadi

ہجر زادی

میری منگنی ہو چکی تھی اور خدا جانے وہ کیسی ہوگی، بس یہی سوچ سوچ کر دل سکوں نہیں لینے دیتا تھا۔ گھر والے مجھ سے پوچھے بنا ہی رشتہ طے کر آئے تھے۔ ایسے ہی ایک دن میں چھت پر ٹہل رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ کسی انجان نمبر سے کال تھی۔ میں نے رسیو کر کے ہیلو کہا؟

ہیلو پارٹنر۔ کیسے ہو؟

نسوانی آواز نے کانوں میں رَس گھولا۔

جی میں تو بہتر ہوں، مگر آپ کون؟

میں نے حیرانگی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ جواب دیا۔

پارٹنر بولا ہے تو سمجھ جائیں کہ آپ کی ہونے والی بیوی ہوں۔

میں اچانک بوکھلا گیا کہ ہیں؟ اس کے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا؟ اور یہ اچانک یوں فون؟

پارٹنر؟ مجھے پتہ ہے کہ آپ کے ذہن میں کئی سوال جنم لے رہے ہیں۔ سب کے جواب مل جائیں گے، لیکن اُس کے لیے ہمیں ملنا ہوگا تو اِسی لیے آپ کل شام سات بجے مون لائٹ فارم ہاؤس پہنچ جائیے گا اور یہ کہہ کر اُس نے فون بند کر دیا۔

دل میں کئی سوالوں کے جھکڑ چلنے لگے تھے۔ کہیں گھر والوں نے یہ رشتہ کر کے کوئی غلطی تو نہیں کر دی تھی یعنی یہ کیسی لڑکی ہوئی کہ سیدھا فون ہی کر دیا اور پہلی بار میں ہی ملنے کا بول دیا۔ خیر جو بھی تھا ایک بار مل لینے میں کوئی قباحت بھی نہیں تھی۔ میں تیار ہو کر وقت پر پہنچ گیا۔ اس کے ایک کزن نے مجھے رسیو کیا تھا۔ شاید مہندی کا فنکشن تھا کیونکہ سب لڑکیوں نے شوخ رنگ جبکہ لڑکوں نے چمکیلے دوپٹے اوڑھ رکھے تھے۔ اچانک لائٹس آف ہوگئیں اور پھر اسٹیج کی طرف میوزک بجنے لگا۔ چند سیکنڈز کے بعد اسٹیج کی روشنی چمکی اور کچھ لڑکیاں وہاں ڈانس کرنے لگیں۔

پھر ایک لڑکی کو ڈولی نما جھولے میں اسٹیج پر لایا گیا اور جب ڈولی کا کپڑا ہٹا تو ہر طرف سیٹیاں اور تالیاں بجنے لگیں۔ اُس لڑکی نے ایک ہاتھ میں پیزا سلائس جبکہ دوسرے ہاتھ میں شراب کی بوتل پکڑ رکھی تھی۔ وہ خوب ڈانس کرنے لگی۔ کبھی پیزا کھاتی تو کبھی شراب کے گھونٹ گوری گلابی گردن سے نیچے اُتارنے لگتی۔ وہ بلا کی حسین تھی، جتنی حسین تھی، ادائیں اُس سے بھی زیادہ جان لیوا تھیں۔ سب پاگل ہو رہے تھے۔ جھوم رہے تھے۔ اُس نے پورے فارم ہاؤس کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ سب مدہوش نظر آ رہے تھے۔ گانا ختم ہوا تو جیسے وقت تھم گیا۔ درخت، ہوا، رات سب رُک گئے۔

کچھ دیر گزری تو وہی لڑکی سگریٹ ہاتھ میں پکڑے میری طرف آتی دکھائی دی۔ کہیں یہ پارٹنر والی تو نہیں؟ دل نے جیسے خبردار کیا؟ اِتنے میں وہ پاس آئی اور سلام کیا، میں نے جواب دیا تو بولی کہ میں نیلوفر، آپ کی ہونے والی بیوی۔

میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔

میری بیوی وہ بھی ایسی کہ جو سگریٹ اور شراب پیتی ہے؟ دل میں نفرت جاگی۔

میں غصے سے بنا کچھ کہے واپس پلٹنے لگا تو بولی کہ رُکیے، جب بلایا ہے تو بات سن کر جائیے۔

کہنے سننے کو اب رہ ہی کیا گیا ہے؟ معذرت قبول کریں، میں یہ شادی نہیں کر سکتا۔

رشتہ تو مجھے بھی قبول نہیں ہے تو کیا توڑ دوں؟ اُس نے فوراً جواب دیا۔ سگریٹ وہ اب بھی پی رہی تھی۔

دیکھیں اَسد، میں ہجر زادی ہوں۔ میرا دل، ذہن، وجود سب کسی اور کا ہے۔ میں بےبس ہوں، دھتکاری ہی ہوں لیکن میرے کردار پہ ایسا کوئی داغ نہیں ہے جس سے عزت میلی ہوتی ہے۔ میں سیدھی بندی ہوں۔ جھوٹ فریب یا مکاری کرنا نہیں آتی مجھے۔ اِسی لیے ہی آپ کو یہاں بلوایا ہے تاکہ آپ میرے بارے میں سب جان لیں۔

میں نے کہا، تم پر یقین کیسے کروں؟

میرے ہاتھ میں سگریٹ ہے، شراب پی کر ناچی ہوں، اِس بات کی وجہ سے یقین کر لیں۔ دیکھ لیں کہ میں سچی ہوں، مجھے کچھ چھپانا نہیں آتا۔ جو ہوں آپ کے سامنے ہوں۔ میں چاہتی تو جھوٹ مکاری کا سہارا لے کر شادی کر سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ مجھے اپنا کر آپ کو کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا۔ ہجر زادی سے شادی کر لیں۔ میں آپ کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دوں گی۔ جو کہیں گے وہی کروں گی۔ کیونکہ میں خود اب ہجر زادی سے وصل کی شہزادی بننا چاہتی ہوں۔ باقی رہا حتمی فیصلہ تو وہ آپ کا ہی ہوگا۔ بندی سر جھکائے کھڑی ہے۔

جانے میرے دل میں کیا آئی اور میں اُسے وہیں چھوڑ کر اسٹیج کی طرف بھاگا اور وہاں سے کون مہندی لیکر واپس آیا اور ہجر زادی کا ہاتھ پکڑ کر اس کی ہتھیلی پر اپنا نام لکھنے لگا۔

"اَسد سلیمان سکندر"

اور تبھی اس نے سگریٹ پھینک کر مجھے گلے لگا لیا۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad