Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Haram Ka Tha

Haram Ka Tha

حرام کا تھا

میرا نام تہمینہ مشتاق ہے۔ میرا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔ میں پردہ دار تھی، اسکول کالج ہر جگہ عبایا پہن کر جاتی تھی۔ ایک قدرے امیر گھر سے رشتہ آیا تو گھر والوں نے فوراً ہاں کر دی اور صرف اٹھارہ سال کی عمر میں جھٹ منگنی اور پٹ ویاہ کر دیا گیا۔

میرے شوہر بہت اچھے تھے۔ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ سسرال میں تین عدد نندیں، ساس اور سسر تھے۔ وہ سب بھی بہت عزت کرتے تھے۔ ان سب کا بس ایک ہی خواب تھا کہ میں جلدی سے ماں بن جاؤں۔ میرے شوہر چونکہ گھر کے اکلوتے وارث تھے تو وہ اپنی جائیدار کے لیے بھی جلدی سے ایک وارث دیکھنا چاہتے تھے۔

شروع شروع میں تو سب اچھا چلتا رہا لیکن جیسے ہی شادی کو ایک سال گزرا تو مجھ پہ اولاد کا پریشر بڑھنے لگا۔ ساس اب صاف کہنے لگیں تھیں کہ بچہ کیوں پیدا نہیں ہو رہا۔ کوئی مسئلہ ہے تو ڈاکٹر کو چیک کرواؤ۔

ساس اور نندوں نے مل کر میرے شوہر پہ بھی پریشر بڑھانا شروع کر دیا کہ بھابھی میں کوئی مسئلہ ہے تو اسے جلدی سے کسی ڈاکٹر کو چیک کرواؤ۔ میرے شوہر مجبوراً مجھے ڈاکٹر پاس لے گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ دونوں کو ہی اپنا چیک آپ کروانا پڑے گا تاکہ صورتِ حال کو فیکٹس اینڈ فگرز کے حساب سے پوری طرح جانچا اور پرکھا جا سکے۔

ہم دونوں کی رپورٹس اوکے تھیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ دونوں میں ویسے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے بس میڈیکلی لحاظ سے آپ دونوں کے خون کے ملاپ کا ایشو ہے وہ جیسے ہی میچ کر گیا آپ دونوں ماں باپ بن جائیں گے۔ ڈاکٹر نے اور بھی بہت کچھ بتایا اور ہدایات دیں، مگر مجھے کوئی بات سمجھ نہیں آئی لیکن میں نے ہُوں ہاں کر دی۔

ہم دونوں گھر آ گئے۔ میرے شوہر نے گھر والوں کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ انہیں یہ امید تو ہوئی کہ مجھ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس اللہ کی طرف سے کچھ دیر ہے۔ مگر جیسے ہی مزید چند مہینے گزرے تو گھر والوں کو بچے کا دورہ پھر پڑ گیا۔ اور اب کی بار وہ طنز اور طعنوں کے تیر بھی چلانے لگے تھے۔ بانجھ کہنے لگے تھے۔ بات بات پر بےعزتی کر دیتے تھے۔ میں اکیلے کمرے میں سارا ساران دن روتی تھی۔ اپنے گھر بھی کچھ نہیں بتا سکتی تھی کیونکہ وہ لوگ زیادہ پریشان ہو جاتے۔

میرے شوہر کو بھی ساس اور نندوں نے بدظن کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن شوہر نے مجھ سے کہا کہ یار ہمیں جلدی بچہ پیدا کرنا ہوگا ورنہ میں دوسری شادی کرنے پہ مجبور ہو جاؤں گا۔ شوہر کی یہ بات مجھ پہ کسی پہاڑ کی طرح گری۔ میری راتوں کی نیندیں اُڑ گئیں تھیں۔ سوکن کا عذاب میرے سینے سے کسی سپولیے کی طرح لیٹنے لگا تھا۔ مگر میں مجبور عورت کیا کرتی۔ پچیس سال کی عمر کو پہنچ چکی تھی۔ ماتھے پہ طلاق کا ٹھپہ بھی نہیں لگا سکتی تھی اور اوپر سے بےاولاد تھی تو آگے شادی کا بھی مسئلہ بننا تھا۔ مجھ سے پھر کون شادی کرتا؟

میں ڈیپریشن میں رہنے لگی تھی۔ میں پردہ دار تھی لیکن اولاد کی خاطر اب پیروں اور عاملوں کے پاس جانے لگی تھی۔ گھر والوں کو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اُنہیں بس اپنے گھر کا وارث چاہئیے تھا چاہے جیسے بھی آئے۔ میں نے تعویز دھاگوں اور عاملوں کے پاس آنا جانا تیز کر دیا تھا اور یوں میری محنت رنگ لائی اور میں امید سے ہوگئی۔

گھر والوں نے جشن منانے شروع کر دیے اور میں اس بات سے خوش تھی کہ مجھ پر سوکن کا عذاب تو ہٹا۔ سب بڑے خوش تھے اور یوں ہمارے گھر ایک بیٹے نے جنم لیا۔ اس دن تو جانے کیا کیا پٹاخے اور فائرنگ کی تھی میرے شوہر نے۔ سب صدقے واری جا رہے تھے اور بڑے خوش تھے۔

بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگا۔ لیکن گھر کے لاڈ پیار نے اُس کی تربیت کو بگاڑنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بدتمیز بن رہا تھا میرے لاکھ کہنے کے باوجود میرے شوہر اور گھر والے میری ایک نہیں سنتے تھے اور میرے بیٹے کی ہر جائز اور ناجائز ضد پوری کرتے رہتے تھے۔ وہ جیسے جیسے ٹین ایج کی طرف قدم بڑھا رہا تھا اس کے عادتیں اور حرکتیں سب لفنگے اور بدمعاشوں والی ہوگئیں تھیں۔ اس نے پڑھائی بھی چھوڑ دی تھی۔ پھر بعد میں پتہ چلا کہ وہ جوا بھی کھیلتا ہے جس کے اثرات جائیداد پر بھی پڑنے لگے تھے۔ اب گھر والوں کو بھی تشویش ہونے لگی تھی۔

لیکن ایک سچ بتاؤں؟ اس میں کسی کی بھی کوئی غلطی نہیں تھی۔ سارا قصور میرا اپنا تھا۔ کیونکہ وہ بچہ حرام کا تھا۔ حلال کا ہوتا تو اچھے کردار کا مالک ہوتا۔ چونکیے مت۔ میں سارا سچ بتاتی ہوں۔

گھر والوں کے پریشر کی وجہ سے میں بہت زیادہ ڈیپریشن میں رہنے لگی تھی۔ طلاق، سوکن، گھر والوں کی پریشانی اور مستقبل کی فکرنے میری سوچوں کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔ میں اس قدر اذیت میں چلی گئی تھی کہ مجھے گناہ ثواب کی فکر سے زیادہ اپنی زندگی کی فکر کھانے لگی تھی۔ بالآخر میں نے فیصلہ کیا اور یوں ایک عامل کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کر لیے۔ ویسے تو سب عامل اچھے سے پیش آتے تھے مگر ایک عامل باتوں باتوں میں جتا دیتا تھا کہ وہ مجھے گارنٹی سے ماں بنا دے گا بس اُسے ایک موقع چاہئے۔ میری من کی مراد پوری ہو جائے گی۔

اور یوں ایک دن میں نے اُسے اپنا آپ سونپ دیا تھا۔ میں کہ جو ایک پردہ دار اور نیک شریف لڑکی تھی۔ اولاد کی وجہ سے میں گناہ کرنے پہ مجبور ہوگئی۔ اور پھر واقعی میں اس عامل نے میری جھولی میں خوشیاں ڈال دیں۔ لیکن حرام کی خوشیاں دیر پا نہیں ہوتیں۔ اس کی سمجھ مجھے بہت بعد میں آئی تھی۔

بیٹا جب بھرپور جوان ہوا تو اس نے ساری جائیدار کو اپنے نام کیا اور جوئے پہ ہارنے لگا۔ ساس، سسر فوت ہو چکے تھے۔ نندیں اپنے گھر چلی گئیں تھیں اور ایک دن میرا شوہر بھی دل کا دورہ پڑنے سے یہ دنیا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ میں شاید اپنے گناہ کی سزا دیکھنے کے لیے زندہ تھی۔ بیٹے نے ایک ایک کرکے سب کچھ بیچ ڈالا تھا۔ مجھے بھی گھر سے نکال دیا تھا۔ میں اب بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پالتی ہوں۔

میں آخر میں بس یہی کہوں گی کہ خدارا، بےاولادی کو قبول کر لو مگر مر کے بھی گناہ کی طرف مت جاؤ۔ ورنہ یہ دنیا اور آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی۔ اللہ بھی ناراض ہوگا اور زندگی بھی عبرت کا نشاں بنا دی جائے گی۔

نوٹ: یہ کردار، جگہیں اور نام سب فرضی ہیں۔

Check Also

Faiz Ahmad Faiz, Faiz Festival Mein

By Mojahid Mirza