Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Ghate Ka Sauda

Ghate Ka Sauda

گھاٹے کا سودا

یہ چند سال پرانی بات ہے۔ میں جس کمپنی میں کام کرتا تھا وہ ہر مہینے کے شروع میں ایک جانور ذبح کیا کرتے تھے اور سارا گوشت کمپنی کے ملازمین میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ میرے حصے میں کوئی دس بارہ کلو گوشت آتا۔ مہینے کے آخر میں جب ہاتھ تنگ ہوتا اور سبزی لینے کے بھی پیسے نہ ہوتے تو گوشت دستیاب ہونے کی وجہ سے بس یہی پکاتے۔

اِس گوشت کی وجہ سے سارا مہینہ اچھا گزر جاتا اور اِس کا فائدہ خاص طور پر تب ہوتا جب کوئی مہمان گھر آتا۔ سچ پوچھیں تو کمپنی کی اِس نیکی کی وجہ سے گھر آئے مہمانوں کے لیے پریشانی جیسے ختم ہی ہوگئی تھی۔ مہمان آتا تو فوراً گوشت پکا لیتے، خود بھی کھاتے اور مہمان بھی خوش ہو کر جاتا۔

یہ کمپنی کے بہترین دن تھے۔ سب اچھے اور خوشحال تھے۔ مالکان خوب منافع بٹور رہے تھے۔ پھر اچانک اُنہوں نے بڑے جانور کو چھوٹے جانور میں تبدیل کر دیا اور کچھ مہینے چھوٹا جانور ذبح کرتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ ایسا کرنا بھی بند کر دیا۔ اپنی طرف سے اُنہوں نے صدقہ دینا چھوڑ دیا۔ عید پر عیدی دینا چھوڑ دی۔ بونس بھی روک لیا۔

بظاہر ایسا کرنے سے کمپنی کو کوئی فرق نظر نہیں آ رہا تھا بلکہ یہ سب کرنے سے وہ کمپنی کی بچت ہی کر رہے تھے۔ اُنہیں کچھ محسوس نہ ہوا کہ ایک جانور اُن کے لیے کتنا کارآمد تھا۔ کتنی دعاؤں کا ذریعہ تھا۔ شاید زیادہ منافع کی وجہ بھی وہی تھا۔ بونس، اور عیدی معاشی خوشحالی کی چابی تھی۔ وہ شاید یہ سب نہیں جانتے تھے اور پھر قدرت نے آہستہ آہستہ فرق واضح کرنا شروع کیا۔

ہماری کمپنی کئی برانڈز پر مشتمل تھی جو کہ باری باری گھاٹے میں جانے لگ گئے۔ مزید کام کرنا مشکل ہوتا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کمپنی ہی بند کرنا پڑ گئی۔ یہ کوئی سُنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی بات ہے۔ قدرت کا نظام اور بدلہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ قدرت بھی تب ہی نوازتی ہے جب آپ خیر بانٹنے میں پہل کرتے ہیں۔ نیکی کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ اور جہاں آپ مخلوق کے لیے خیر کا ہاتھ پیچھے کھینچتے ہیں، قدرت آپ کے کام سے برکت نکال لیتی ہے۔

ہمیں لگتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ اللہ نے کچھ نظام طے کر رکھے ہیں، کچھ اصول و ضوابط بنا رکھے ہیں کہ جن میں اونچ نیچ کرنے سے، بےایمانی کرنے سے، نیت بدل جانے سے سیدھے کام بھی اُلٹے ہونے لگتے ہیں۔ سونے کو بھی ہاتھ لگ جائے تو چاندی بن جاتا ہے اور چاندی سلور کی طرح ہو جاتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے وافر میں مخلوق کا حصہ بھی شامل ہے۔ ہمارا نفع مستحق لوگوں کی دعا میں چھپا ہے۔ ہماری کامیابی میں اور بھی بہت سے عمل کارفرما ہوتے ہیں۔

بس غور و فکر کریں اور ایسے کاموں سے بچیں کہ جو ڈائریکٹ اللہ کی مخلوق سے وابستہ ہوں کیونکہ مخلوق سے جُڑے کام ہی برکت اور نحوست کا سبب بنا کرتے ہیں اور یاد رکھیں کہ مخلوق خوش ہو تو خدا خوش ہوتا ہے۔۔!

Check Also

Qomon Ke Shanakhti Nishan

By Ali Raza Ahmed