Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Gari Ki Raftar

Gari Ki Raftar

گاڑی کی رفتار

گاڑی ایک ایسی چیز ہے جسے سب جانتے ہیں۔ کئی لوگوں کے پاس اپنی ذاتی ہوتی ہے تو کئی چلانا تو لازمی جانتے ہوتے ہیں اور جن کو چلانا نہیں بھی آتی تو اُنہوں نے دیکھی ضرور ہوتی ہے۔ اِسی طرح موٹر سائیکل بھی اکثریت کے پاس موجود ہے اور تقریباً سب کو چلانا بھی آتا ہے۔

گاڑی ہمیں سفر کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ہم ایک جگہ سے دوسرے جگہ جانے کے لیے اِس کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے لگژیری سواری ہوتی ہے جس پہ سفر جلدی طے ہوتا ہے اور تھکاوٹ بھی محسوس نہیں ہوتی۔

گاڑیوں کے بھاگنے کی عموما رفتار 180 سے 240 تک ہوتی ہے اس کے علاوہ بھی ہر گاڑی میں اسپیڈ میٹر الگ الگ حساب سے لگا ہوتا ہے۔ یعنی اسپیڈ میٹر یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ گاڑی فلاں مقرر کردہ رفتار تک چلائی جا سکتی ہے۔ میٹر کے اوپر رفتار کی کچھ حدوں تک کلرز کا استعمال کرکے خبردار بھی کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر کہ 80 کلومیٹر کی رفتار محفوظ ہوتی ہے، 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار قدرے محفوظ جبکہ 140 کی رفتار غیر محفوظ یا اس سے زیادہ تیز رفتاری کسی خطرناک حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ گاڑی کے میٹر اور دی گئی طاقت کے مطابق ہم گاڑی کیوں نہیں چلا سکتے؟ جب ایک گاڑی 180 کی رفتار سے چلائی جا سکتی ہے، اُس میں یہ قابلیت بھی موجود ہوتی ہے تو اس کے باوجود ہم گاڑی ایک مناسب رفتار میں رہ کر کیوں چلاتے ہیں؟ تو جواب ہوگا کہ بلاشبہ گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ چلنے کی طاقت رکھتی ہے مگر تیز رفتاری خود گاڑی کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ وہ ایسا کرنے سے خود کو نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔ گاڑی کی حفاظت یا خود کو محفوظ رکھنا ضرورت کے مطابق اور مناسب رفتار کے استعمال سے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔

بالکل اِسی طرح ہم انسانوں میں بھی کئی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں لیکن اُن کا بھرپور یا مکمل استعمال ہر بار ٹھیک نہیں ہوتا۔ ہم ایسا کرنے سے خود کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔ ہمیں بھی گاڑی کی رفتار کی طرح مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنے اندر کی صلاحیتوں کا سو فیصد استعمال کرنا شروع کر دیں۔ مثال کے طور پر ایک انسان میں دوسرے انسان کو قتل کرنے کی بھرپور صلاحیت اور طاقت موجود ہوتی ہے لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کرنا شروع کر دے۔ وہ بدتمیزی کرنے لگ جائے یا کچھ بھی ایسا جو خود اُس کے اپنے یا دوسروں کے لیے نقصان پیدا کرنے لگ جائے۔

یاد رکھیں کہ کسی بھی صلاحیت کا سو فیصد استعمال ممکن نہیں ہوتا۔ حالات، ضرورت اور وقت کے لحاظ سے ہی چیزوں اور وسائل کا استعمال کرنا زندگی کی خوبصورتی کہلاتا ہے۔ ہر چیز میں توازن لانا سیکھیں، زندگی آسان اور خوبصورت ہوتی جائے گی۔ اِسی لیے بس یہ ذہن نشین کر لیں کہ زندگی میں کچھ بھی سو فیصد یا مکمل نہیں ہوتا۔ بس ضرورت کے حساب سے چیزوں اور مشکلوں کو قابو میں رکھ کر آگے چلنا ہوتا ہے۔ اللہ آپ کو حامی و ناصر ہو۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf